Nov 20, 2009

Young India Sabha

نوجوان بھارت سبھا

    بہار کا موسم تھا اور ایک غلام ملک میں بھی قانونِ فطرت‘ خزاں کی زنجیریں توڑ کر کونپلیں‘ کلیاں اور پھول لیے ہند کے نوجوانوں کو خوشبو کا‘ محبت کا اور امیدکا پیغام دے رہا تھا۔ مارچ کا مہینہ تھا‘ وہی مارچ جس کی بھگت سنگھ کی زندگی میں بڑی اہمیت تھی۔بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے لاہور میں مارچ 1926 میں نوجوان بھارت سبھا قائم کی۔ اس جلسے میں سکھ دیو‘ بھگوتی چرن ووہرا‘ رام کشن‘ بھگت سنگھ اور کئی دوسرے نوجوان شریک ہوئے۔ رام کشن کو اس کاصدر اور بھگت سنگھ کوسیکریٹری چُنا گیا۔ وہ اسکول اور کالج کے طالب علموں کے مسائل حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے لگے۔انہوں نے طالب علموں کے لیے سماجی اور ادبی پروگرام بھی منعقد کیے۔ لیکن جلد ہی وہ نوجوان بھارت سبھا کے جلسوں میں ہند کی آزادی کامطالبہ کرنے لگے۔ انہوں نے ملک میں کسانوں اور مزدوروں کی حکومت قائم کرنے کے لیے پروگرام پیش کیے ۔ ڈی اے وی کالج ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ وہ ان جلسوں میں ملک کو درپیش معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی مسائل پر بحث کیا کرتے تھے۔ وہ وطن کی آزادی کی راہ میں شہید ہونے والوں کی یادمیں ہمیشہ جلسے منعقد کرتے تھے۔ انہوں نے کرتاسنگھ سرابھا اور اور مدن لال ڈھینگڑا کی یاد میں جلسے کیے۔ انہیں یقین تھا کہ وطن کی آزادی کے لیے قربان ہو جانے والے امر ہو جاتے ہیں۔
    نوجوان بھارت سبھا کو بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ برطانیہ کے خلاف طالبعلموں اور پروفیسروں کی سرگرمیوں کو پنجاب کی سرکار بڑی ناراضگی کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ یہ نوجوان ہندوستان میں مکمل آزادی کے خواہاں تھے ۔ اسی لیے وہ نوجوانوں سے اپیل کرتے تھے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔روس‘ چین‘ جاپان‘ اور ترکی میں ہونے والی دور رس تبدیلیوں کوسمجھیں اور ان بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں ہند کی آزادی اور اس کے مستقبل پر غور کریں۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک کسان‘ مزدور اور متوسط طبقہ حکومت پر قبضہ نہیں کرے گا‘ موجودہ استحصالی نظام ختم نہیں ہوگا۔ ان کا آئیڈیل ایک عوامی انقلاب تھا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی کا کوری سازش کیس میں گرفتار سچندرناتھ سانیال اور جوگیش چٹرجی کو جیل سے آزاد کرواناچاہتے تھے‘ لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔نوجوان بھارت سبھانے کا کوری کیس کے خلاف مسلسل جلسے اور مظاہرے کیے‘ لیکن ان کا احتجاج نوجوان انقلابیوں کو نہیں بچا سکا۔

No comments:

Post a Comment