Nov 20, 2009

Kakori Conspiracy Case


کاکوری سازش کیس
شہیدان حریت کی یادمیں
خاک کاکوری میں ہے خونِ شہادت کا یہ رنگ
ذرہ ذرہ لعل ہے یا قوت ہے بیجادہ ہے
پھول پھل لانے کو ہے اُگتے ہی آزادی کا بیج
کل وہی استادہ ہوگا آج جو افتادہ ہے
                            ظفر علی خاں
    صوبۂ متحدہ میں چندرشیکھر آزاد اور رام پرساد بسمل نے ایچ ۔آ۔ر اے کوبڑی محنت سے منظم کیاتھا۔ انقلابی پارٹیوں میں شامل نوجوان عام طور پر متوسط‘ کسان اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے انہیں سیاسی سرگرمیوں میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ پارٹی کی مالی اور ہتھیاروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈاکے ڈالا کرتے تھے۔ رام پرساد بسمل کا خیال تھا کہ ہندوستان میں سب سے بڑا ڈاکوخود برطانوی سرکار ہے‘ جس نے فوجی طاقت کے بل پر ہندوستان پر قبضہ کیا ہے۔ اس لیے سرکاری خزانے کو لوٹ کر اخراجات پورے کیے جائیں۔ 9/اگست 1925کودس انقلابی نوجوانوں نے سہارن پور سے لکھنؤ جانے والی ٹرین کو کاکور ی ریلوے اسٹیشن کے قریب روکا۔ ٹرین کے ایک ڈبے میں رکھی ہوئی لوہے کی سرکاری تجوری کو بڑی مشکل سے توڑا گیا‘ اس میں صرف 4679روپے تھے۔ اس ڈاکے کے بعد غیر ملکی حملہ آور نے انقلابیوں پر سخت حملہ کیا۔ صوبہ متحدہ میں پولیس چھاپوں اور گرفتاریوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا‘ لیکن چندر شیکھر آزاد جو اس حملے میں شریک تھا‘ فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ ایچ ۔آ۔ر اے کے اکثر کارکن جیلوں میں ڈال دیئے گئے۔ جس شخص پر پولیس کو معمولی سا شبہ ہوتا‘ اسے گرفتار کرلیا جاتا اور پھر سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
    کاکوری سازش کیس کے تحت 29 ہندوستانی انقلابی نوجوانوں پر دشمن حملہ آور نے مقدمہ قائم کیا۔ ان کے دو ساتھی وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ ان انقلابی نوجوانوں نے پولیس تھانوں اور جیلوں میں پولیس تشدد کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال کی۔ یہ مقدمہ ایک سال تک جاری رہا۔ یہ انقلابی نوجوان اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ یہ قانونی کھیل تو فقط ایک تماشا ہے اور غیر ملکی سرکار انہیںسخت سزا دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ وہ کورٹ کی کارروائی کو نظرانداز کر کے انقلابی گیت گاتے یا انقلاب زندہ باد اور سامراج مردہ باد کے نعرے لگایا کرتے تھے۔اسی زمانے میں یہ اشعار لکھے گئے اور قوم پرست ہندوستانیوں میں بے حدمقبول ہوئے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
    غیر ملکی حملہ آور کی کورٹ نے چار ہندوستانی نوجوانوں رام پرساد بسمل‘ ﴿شاہ جہاں پور﴾ اشفاق اللہ خان ﴿شاہ جہاں پور﴾ روشن سنگھ ﴿شاہ جہاں پور﴾اور راجندرناتھ لاہیری ﴿موہن پور‘ ضلع پبنہ بنگال﴾ کو پھانسی کی سزا سنائی ۔ پانچ انقلابیوں کو عمر قید اور بقیہ کو مختلف مدت کی سزائیں دی گئیں۔ ان سزائوں کے خلاف پورے ملک میں سخت احتجاج ہوا‘ جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔ موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرووغیرہ نے موت کی سزا کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ صوبہ متحدہ میں انگریز کی قائم کردہ لیجس لیٹو کونسل کے سب غیر سرکاری ارکان نے پھانسی کی سزا کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس سلسلے میں کی گئیں سب اپیلیں اور احتجاج حقارت سے ٹھکرا دیئے گئے۔ دشمن قابض ملک یہ بتا دینا چاہتا تھا کہ وہ ہندوستانی غلاموں کو کچل دینے کی پوری طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے۔
    یہ سب نوجوان کئی سالوں سے برطانیہ کے خلاف مسلح لڑائی میں حصہ لے رہے تھے۔ ان چاروں نوجوانوں نے شیر گنج‘ بیج پوری اور منی پوری وغیرہ کے حملوں میں حصہ لیا تھا۔ وہ مادرِ وطن کے لیے جان نچھاور کرنا باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔ چاروں انقلابیوں کو سزا کے بعد الگ الگ جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ اس لیے انہیں پھانسی بھی چار مختلف جیلوں میں دی گئیں۔ راجندر ناتھ لاہیری کو گونڈا جیل میں 17/دسمبر 1927کو اور اشفاق اللہ خاں کو فیض آباد جیل میں 18/دسمبر 1927 کوپھانسی دی گئی۔ اشفاق اللہ کی گردن پر قرآن بندھا ہوا تھا۔ وہ شاعر بھی تھا اور اس نے پھانسی سے پہلے یہ شعر پڑھا تھا۔
کچھ آرزو نہیں ہے‘ ہے آرزو تو یہ
رکھ دے کوئی ذرا سی خاکِ وطن کفن میں

    روشن سنگھ کو نینی تال سینٹرل جیل میں 20/دسمبر 1927کوپھانسی دی گئی‘ اس کے ہاتھ میں گیتا اور ہونٹوں پر بندے ماترم تھا۔ رام پرساد بسمل نے گورکھ پور ضلع جیل میں 19/دسمبر 1927کو پھانسی کی سزا دیے جانے سے پہلے کہا تھا کہ ۔
    ’میری آرزو ہے کہ برطانوی سامراج تباہ ہو جائے ‘۔
    اس برطانوی تشدد نے صوبہ متحدہ میں ایچ۔ آر۔ اے کو بہت کمزور کردیا تھا‘ لیکن پھر بھی وہ قائم رہی۔ چندرشیکھر آزاد نے بڑی محنت سے نئے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ مل کر پارٹی کو نئے سِرے سے منظم کیا۔
کھنچو گے ابھی تختۂ دار پر تم
ابھی تم کو پھانسی پر جانا پڑے گا
بہت سے کڑے مرحلے راہ میں ہیں
یہ طے کر کے منزل تک آناپڑے گا
                        احمق پھپھوندی  ﴿محمد مصطفی خاں﴾

No comments:

Post a Comment