Nov 22, 2009

Spanish Imperialist Occupation on Cuba

کیوبا پر ہسپانوی سامراجی تسلط
    جنوبی امریکا کی فوجی آمریتوں کے بھیانک جنگل میں جب کیوبا کے انقلابی نوجوان آزادی‘ انقلاب اور سماجی انصاف کا پرچم لے کر اٹھے تو میکسیکو سے برازیل تک ہی نہیں بلکہ افریقا‘ ایشیا اور یورپ تک کی یونیورسٹیاں بھی کیوبا‘ فیدل کاسترو اور چی گویرا کے ناموں سے گونجنے لگیں۔ ایک چھوٹے سے جزیرے سے اٹھنے والی نوجوانوں کی یہ انقلابی آواز بڑی دلکش اور دل آویز تھی۔ شمالی امریکی سامراج سے صرف نوے میل دور‘ کیوبا کے انقلابی اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے تقریباً آدھی صدی سے تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں۔ کل کیا ہوگا؟ یہ کسی کو نہیں معلوم لیکن آج کے عہد کا سب سے بڑا سچ کیوبا ہے۔

جغرافیہ
    جزائرِ کیوبا خلیج میکسیکو کے دہانے پر واقع ہیں۔ اس کا سب سے بڑا جزیرہ کیوبا مچھلی سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے اردگرد 1600چھوٹے چھوٹے جزیرے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے شمال میں بحرِ اوقیانوس اور جنوب میں بحرِ کیریب ینز ہے۔ اس کا رقبہ 44218 مربع میل ہے۔ اس کا 40 فیصد پہاڑی حصہ گھنے جنگلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس کی چوڑائی کہیں صرف 22 میل اور کہیں 124 میل ہے۔ اس کا ساحل 2175 میل لمبا ہے اور اس کی آبادی 11,382,820 ہے۔ اس چھوٹے سے جزیرے کے پاس دنیا کی بہترین بندرگاہیں ہیں مثلاً حوانا‘ گوانتا نامو‘ باحیا‘ حوندا‘ سانتیاگو دی کیوبا وغیرہ۔ کیوبا کا موسم معتدل ہے اور بارش خوب ہوتی ہے۔

کیریب ینز کا علاقہ
    کیوبا کی تاریخ کیریب ینز کے علاقے سے جڑی ہوئی ہے۔ جزائر کیریب ینز شمالی اور جنوبی امریکا کے درمیان پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں کیوبا‘ حیٹی‘ پورتوریکو اور جمیکا نسبتاً بڑے جزیرے ہیں۔ اس علاقے میں ہزاروں سالوں سے اراواک اورکیریب قبائل رہتے تھے۔ آبادی بہت کم تھی۔ موسلادھار بارش‘ گھنے جنگلات اور سمندر کی قربت کے باعث اس علاقے میں رہنے والوں کا انحصار بھی مچھلیاں پکڑنے اور جنگلی جانوروں کے شکار پر تھا۔ یہاں مچھیروں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں۔
    پندرہویں صدی میں ہسپانوی بحری قزاق ان بستیوں میں پہنچے۔ جب نوکا جہاز سے ٹکرائی‘ جب تیرکمان‘ گن اور توپ کے مقابل ہوئے‘ جب کھلے بدن اور ننگے پیروں کا مقابلہ گھڑسواروں سے ہوا تو ان کے درمیان فاصلہ کئی عہد کا تھا۔ پتھر کے عہد سے لوہے کے زمانے تک کی دوری۔ پھر قتل و غارت‘ لوٹ مار اور استحصال کے ایک ایسے عہد کا آغاز ہوا‘ جس نے قدیم قبائل کی آزادی اور خوشیاں چھین لیں۔ اراواک اور کیریب قبائل کی اکثریت ہلاک کردی گئی۔ یہ جزیرے اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے لیے کہیں دور فرار ہو جانا بھی ممکن نہیں تھا۔
    ابتدا میں تمام جزائر پر اسپین قابض تھا۔ لیکن شمالی امریکا پر قبضہ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے بھی چند چھوٹے چھوٹے جزیرے اسپین سے چھین لیے تھے۔ کیریب ینز جزائر بحرِ اوقیانوس میں یورپ اور شمالی امریکا کے درمیان تجارتی بحری راستہ پر واقع تھے اور ان جزائر پر کنٹرول کر کے اس بحری تجارت پر برتری حاصل کی جاسکتی تھی۔ اب اس علاقے پر فقط اسپین کا تسلط نہیں تھا۔ اسپین‘ برطانیہ‘ فرانس اور ہالینڈ جب یورپ اور ایشیا میں زمین کے ٹکڑوں اور تجارتی لوٹ کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے تھے تو پھر یہ حسین جزائر بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آجایا کرتے تھے۔ 1655 میں برطانیہ نے جمیکا پر اور فرانس نے حیٹی کے آدھے جزیرے پر قبضہ کرلیا۔
    سامراجی تاجروں اور بحری قزاقوں پر یہ انکشاف ہوچکا تھا کہ ان جزائر کی زمین اور موسم گنے کی پیداوار کے لیے بہترین ہیں۔ یورپ میں شکر کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ ہزاروں ہسپانوی‘ برطانوی‘ فرانسیسی اور ولندیزی امیگرانٹس بغیر کسی پاسپورٹ اور ویزا کے ان جزائر میں آباد ہو گئے۔ شمالی امریکا میں تو پہلے ہی ہزاروں کٹر پیوری ٹنز فرقہ کے انگریز قدیم امریکی قبائل سے ان کی زمین چھین چکے تھے۔ برطانیہ اور فرانس نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مزید کئی چھوٹے چھوٹے جزیروں پر قبضہ کرلیا تھا۔ یورپ کے سامراجیوں کی آپس کی جنگوں نے اس علاقے میں تشدد اور نفرت کو پھیلایا۔ ان جزائر میں قدیم دور میں کبھی بھی ایسی وحشیانہ جنگیں نہیں ہوتی تھیں۔ فلسفہ‘ ادب‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ اور سائنس کی علمی دنیا میںمنطقی دلائل پیش کرنے والوں کا اصلی چہرہ بڑا بھیانک تھا۔

No comments:

Post a Comment