Nov 18, 2009

The Murder in Jilyan Wala Bagh on 13th April 1919


جلیان والا باغ میں قتلِ عام 13 /اپریل 1919

    برطانیہ نے دورانِ جنگ ہندوستانیوں کو یقین دلایا تھا کہ جنگ ختم ہوتے ہی نئی اصلاحات نافذ کی جائیں گی‘ لیکن ان توقعات کے برخلاف رولیٹ بل نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر کے اسے بغاوت قرار دیا گیا۔ اس قانون کے تحت سرکار کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں نظر بند کرسکتی تھی۔ عوام نے اسے کالے قانون کا نام دیا یعنی ناوکیل نا اپیل نادلیل۔ اس بل کی پورے ملک میں شدید مخالفت ہوئی اور محمد علی جناح‘ سرسنکرن نائر‘ مظہر الحق‘ پنڈت مالوی اور بی این شرما نے بطور احتجاج دلّی کی مرکزی اسمبلی سے استعفا دے دیا۔انڈین نیشنل کانگریس اور خلافت تحریک دونوں اس بل کی مخالت کررہی تھیں۔ ملک بھر میں اس کے خلاف جلسے ہورہے تھے۔ کانگریس‘ گاندھی کے مشورے پر اس کالے قانون کے خلاف ستیہ گرہ کرنے کے لیے رضا کار بھرتی کرنے لگی۔ 6/اپریل 1919 کو پورے ملک میں رولٹ بل کے خلاف ہڑتال ہوئی۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں اس کالے قانون کے خلاف جلسے ہورہے تھے۔ پولیس نے امرتسر کے دو مقبول رہنمائوں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو شہر بدر کردیا۔ اس کے خلاف امرتسر میں 10/اپریل کو جلوس نکالاگیا‘ جس پر گھڑ سوار فوجیوں نے گولی چلا دی۔ اس کی وجہ سے شہر میں فساد ہو گیا جس میں کئی ہندوستانی اور گورے مارے گئے۔ اس فائرنگ کے خلاف 13/اپریل 1919کو جلیان والا باغ میں ایک جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ سرکار نے جلسے پر پابندی عائد کردی‘ جس کا شہر میں لوگوں کو علم ہی نہیں تھا۔ عوام میں سرکاری تشدد کے خلاف اس قدرناراضگی تھی کہ وہ کوئی ایسا حکم ماننے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔
    جلیاں والا باغ ایک وسیع میدان تھا جو چاروں طرف رہائشی عمارتوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس دن بیساکھی کا میلہ بھی تھا اور عموماً کسان یہ تہوار منانے امرتسر آیا کرتے تھے۔ اس دن گائوں سے آئے ہوئے بہت سے کسان بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ امرتسر شہر کے ہزاروں لوگ جلسے میں شریک ہونے کے لیے آرہے تھے۔ ان میں ہندو‘ مسلمان اور سکھ سبھی شامل تھے۔ جلسہ شروع ہی ہوا تھا کہ جنرل ڈائر اور پچاس گورکھا سپاہی میدان میں داخل ہوئے۔ جنرل ڈائر تو مزید سپاہی اور توپیں لے کر آیا تھا‘ لیکن باغ کا دروازہ چھوٹا تھا‘ اس لیے انہیں باہر چھوڑنا پڑا تھا۔ اس میدان میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ تھا۔ سپاہی یہ راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔ اس وقت شام کے ساڑھے پانچ بجے تھے‘ آسمان صاف تھا‘ ہوا میں موگرے اور سرسوں کی خوشبورچی ہوئی تھی۔ غیر ملکی حملہ آور جنرل ڈائر نے بغیر وارننگ دیے نہتے شہریوں پر فائرنگ کرنے کا حکم دے دیا۔ آخر فائرنگ رُک گئی کیونکہ گولیاں ختم ہوچکی تھیں۔ ’منٹوں میں جلیان والا باغ خون میں نہا چکا تھا۔ چاروںطرف لاشیں پڑی تھیں۔ خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا‘۔ لاشیںاور زخمی رات بھر وہیں پڑے رہے۔ شہر ہتھیاروں سے لیس برطانوی فوج کے قبضے میں تھا۔ ہزاروں ہندوستانی قتل کردیے گئے تھے اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ ان مرنے والوں میں چند مہینوں کے بچوں سے لے کر بوڑھے تک تھے۔ ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ‘ سکھ بھی تھے اور عیسائی بھی۔ ان سب کا جرم کیا تھا؟ یہی کہ وہ غلام ہندوستانی تھے!
    ہند میں پیدا ہونے والے جنرل ڈائر کو ہندوستان اور ہندوستانیوں سے شدید نفرت تھی۔ اس نے فخریہ بیان دیاتھا کہ ’ایک بھی انگلش گولی ضائع نہیں ہوئی‘ جتنی گولیاں چلیں اتنے ہی ہندوستانی مارے گئے‘ ۔ انگریزی سرمایہ دارانہ کلچر نے پھر اپنا بھیانک روپ دکھایا تھا۔فائرنگ کی خبر پہلے امرتسر میں پھیلی اور پھر پورے پنجاب میں پھیل گئی۔ پنجاب کے گورنر جنرل او ڈوائر نے پنجاب میں سخت مارشل لا اور سنسر نافذ کردیا۔ اس قتلِ عام کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بڑے شرمناک مظالم ڈھائے گئے۔ امرتسر اور پنجاب میں برطانوی مظالم و دہشت گردی کی خبر جب ہندوستان میں عام ہوئی تو غصے ‘ نفرت اور احتجاج کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
    غیر ملکی حملہ آور دشمن نے بیسویں صدی کے ہندوستان میں ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ لکھی۔ جنرل ڈائر اور جنرل او ڈوائر کے حکم پر امرتسر میں لوگوں کو پیٹ کے بل چلوایا گیا۔ شہروں پر ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی اور مشین گنوں سے گولیاں برسائی گئیں۔ گجرانوالہ‘ لاہور‘ قصور‘ وزیرآباداور امرتسر وغیرہ میں چوکوں پر ٹکٹکیاں نصب کر کے لوگوں کو سرِعام کوڑے مارے گئے.لاہور کی شاہی مسجد میں گوروں نے سخت توہین آمیز فعل کیے اور پھر مسجدکو بندکردیا گیا. ہاتھ پائوں باندھ کر ہتھیلیوں پر انگارے رکھے گئے. کوڑے کھا کر بے ہوش ہو جانے والے بچوں کو ہوش میں لاکر پھر کوڑے مارے گئے. ہندوئوں اور مسلمانوں کو جوڑوں میں زنجیر سے باندھ دیا جاتا تھا تاکہ ان کے اتحاد کے انجام کو ظاہر کیا جائے. لوگوں کو پنجروں میں بند کر کے ان کی بے عزتی کرنے کے لیے اسے عوامی مقامات پر رکھا گیا۔ یہ ان وحشیانہ مظالم کی صرف چند مثالیں ہیں۔

No comments:

Post a Comment