Nov 18, 2009

The First Civil Disobedience Movement

پہلی سول نافرمانی کی تحریک
    مولانا ابوالکلام آزاد اور علی برادران جنگ ختم ہونے کے بعد بھی فرنگی جیلوں میں نظر بند تھے۔ 19/ستمبر 1919کو کئی مسلمان رہنمائوں نے ممبئی میں ایک آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کی۔ اس سے پہلے دسمبر 1918میں مسلم لیگ نے اپنے دلی کے اجلاس میں ہندوستان کے سب فرقوں سے اپیل کی تھی کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کی مدد کریں۔ محمد علی جناح نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی اور اس اجلاس سے واک آئوٹ کر گئے تھے۔ خلافت کمیٹی کے قیام کے دو مہینے بعد موہن داس گاندھی اس میں شامل ہو گئے۔ وہ اس کمیٹی کے واحد ہندو رُکن تھے۔ گاندھی اکیس سال جنوبی افریقہ میں رہنے کے بعد 1915میں ہندوستان واپس آئے۔ دنیا میں برترین نسلی امتیاز روا رکھنے والے ملک جنوبی افریقہ میں وہ نسلی منافرت کے خلاف عدم تشددکی تحریک کے دوران مشہور ہوئے تھے۔ انہوں نے اور انڈین نیشنل کانگریس نے یورپی سامراجیوں کی جنگ میں برطانیہ کی حمایت کی تھی‘ بلکہ گاندھی نے صوبۂ گجرات میں گائوں گائوں گھوم کر نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوں نے فوجی بھرتی کے حق میں کئی پمفلیٹ لکھے۔ ایک پمفلیٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ۔
’سوراج کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ایمپائر کے دِفاع کو مضبوط بنانا ہے۔ کیونکہ اگر ایمپائر ختم ہو گئی تو ہماری امیدوں اور تمنائوں کا محور بھی ختم ہو جائے گا‘
    انہوں نے وائسرائے کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ
’میں اس کڑے وقت میں ہندوستان کے ہر فرزند کو ایمپائر کے لیے کٹ مرنے پر راضی کرنا چاہتا ہوں‘
    لیکن گجرات میں فوجی بھرتی کی یہ مہم بری طرح ناکام ہوئی۔ ﴿9﴾ اسی دوران وہ کانگریس میں شامل ہو گئے اور کانگریس کے توسط سے پورے ملک میں اپنے رابطوں کو وسعت دینے لگے۔ گوکھلے اور تلک ختم ہو چکے تھے‘ گاندھی نے نہ صرف اس خلا کو پُر کیا بلکہ اپنے حلقۂ اثر کو بڑی تیزی سے بڑھایا۔
    برطانوی سامراجی دیمک نے ہندوستان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کردیا تھا۔ وہ ملک جیسے سونے کی چڑیا کہا گیا تھا‘ سامراج کی ہوس‘ بھوک اور خودغرضی کے باعث دنیا کا سب سے غریب ملک بن چکا تھا۔ اب یہ تیس کروڑ غلاموں اور بھکاریوں کا دیس تھا‘ لیکن استحصال اور ظلم سے تنگ آئے ہوئے عوام اس غیر ملکی راج کو چیلنج کرناچاہتے تھے۔ قحط‘ مہنگائی اور بیروزگاری کے اژدہے شہر‘ شہر اور گائوں ‘ گائوں پھنکار رہے تھے۔ ان حالات نے محنت کشوں‘ کسانوں‘ نوجوانوں اور طالب علموں کو شہر کے پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ متحد کردیا تھا۔ عبداللہ ملک لکھتے ہیں کہ ۔
    ’اس زمانے میں ہندوستان بھر میں دیہی زندگی کی بربادی کا نقشہ بڑا اندوہناک ہے. کوئی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ نچلے درمیانے طبقے کے مسلمانوں‘ دیہات کے کسانوں‘ گھریلو دستکاری کے پیشے سے متعلق لوگوں نے ہزارہا میل دور کی خلافتِ عثمانیہ کی بقا کے لیے جو جیل جانا منظور کیا تھا‘ تو وہ صرف خلافتِ عثمانیہ کی بقا کے لیے نہ تھا۔ بلکہ وہ تو انگریز اوراس کی چیرہ دستیوں کے خلاف احتجاج تھا. اس پسِ منظر میں پنجاب میں فوجی بھرتی‘ گھریلو دست کاری کی تباہی‘ زرعی بحران اور اس پر ساہوکاروں کی اندھیرنگری‘ سب نے مل کر خلافت اور کانگریس کی عدم تعاون کی تحریک کا قوام تیار کیا. نچلے درمیانے طبقے کے مختلف عناصر نے کھلم کھلاانگریز کے خلاف محاذ قائم کیا۔ کبھی اس نے ڈنڈا فوج بنائی اور کبھی اس نے ریل کی پٹڑی اکھاڑی اور کبھی انگریز کے بینک لوٹنے سے بھی گریز نہ کیا۔ اس کے مقابلے میں بڑے زمین دار‘ بڑے بیرسٹر اور شہری معززین نے انگریز سے صلح اور آشتی کی راہ اختیار کی۔
    1919کی ابتدا سے کالے قانون رولٹ بل کے خلاف احتجاجی جلسے ہورہے تھے۔ گاندھی نے ان مسائل کے حل کے لیے اپنا اہنسا یا عدم تشدد کا فلسفہ پیش کیا۔جس کے مطابق ہتھیاروں کی طاقت کا مقابلہ اخلاقی برتری کی طاقت سے کرنے کا نظریہ پیش کیا گیا۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی گولیوں کا مقابلہ ہندوستان کی روحانی طاقت سے کیا جائے۔ گاندھی نے بڑی مشکل سے برطانیہ نواز کانگریس کو تحریکِ سول نافرمانی یا ستیہ گرہ میں شرکت کے لیے آمادہ کیا۔ ستیہ گرہ کی اس تحریک کو کانگریس سے الگ رکھنے کے لیے ایک ستیہ گرہ سبھا بنائی گئی‘ تاکہ لوگ انفرادی طور پر فیصلہ کر کے اس میں شامل ہو جائیں۔ ملک بھر میں 6/اپریل 1919کو ہڑتال اور جلسے کر کے برطانیہ کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔ عوام نے بڑی بہادری سے سرکاری تشدد کا سامناکیا۔ کئی مقامات پر پولیس کی فائرنگ اور پھر پنجاب کے قتل عام کے بعد کانگریس نے 21/جولائی 1919کو رولٹ بل کے خلاف تحریک معطل کردی۔ دسمبر 1919 میں کانگریس کا سالانہ اجلاس امرتسر میں ہوا۔ علی برادران بھی رہا ہوتے ہی سیدھے کانگریس کے اجلاس میں شریک ہونے امرتسر پہنچے۔ اسی دوران امرتسر میں خلافت کمیٹی اور مسلم لیگ کے اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ خلافت کمیٹی نے ہجرت اور جہاد کے راستوںکے برخلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بعض علمائ نے ہند کو دارالحرب قرار دے کر افغانستان ہجرت کرنے کے فتوے دیے۔ ہزاروں غریب ہندوستانی مسلمان جب ہجرت کر کے افغانستان پہنچے تو انہیں افغان حکام نے اپنے علاقے میں گھسنے تک نہ دیا۔
    حکومتِ برطانیہ نے دسمبر میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 نافذ کیا۔ اس کے تحت اسمبلی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا۔ محمد علی جوہر کی قیادت میں خلافت کمیٹی کا ایک وفد برطانوی حکومت سے مذاکرات کرنے 1920 میں انگلستان گیا‘ لیکن ناکام واپس آیا۔ آخرکار گاندھی اور ان کے ہم خیال کانگریس کی پالیسی کوبدلنے میں کامیاب ہوئے۔ کانگریس نے دسمبر 1920 میں ناگپور کے اجلاس میں سول نافرمانی کی تحریک کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ سی آر داس اور لالہ لاجپت رائے بھی اس کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو گئے‘ لیکن محمد علی جناح نے اس کی مخالفت کی اور کانگریس سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ کانگریس کے اجلاس میں غیر ملکی مال‘ سرکاری عدالتوں اور سرکاری ملازمتوں کے بائیکاٹ کرنے‘ مالیہ اور ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کرنے اورسرکاری خطابات واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ خلافت کمیٹی اور کانگریس نے متحد ہوکر جدوجہد شروع کی۔
    کانگریس کی قیادت نے سول نافرمانی کی تحریک میں شرکت کا فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا تھا۔ ہند کے برطانیہ نواز سرمایہ دار طبقے نے جنگ کے دوران زبردست منافع کمایا تھا۔ برطانوی سرکار نے انہیں عام جنگی ضروریات کی اشیائ اور دیگر روزمرہ کے استعمال کی چیزیں تیار کرنے کی اجازت دی تھی۔ جنگ کی وجہ سے مجبوراً یہ اجازت دی گئی تھی۔ جنگی ضروریات کے پیشِ نظر ملک بھر میں نئی سڑکوں کے جال بچھائے گئے اور ریلوے کے نظام کو وسعت دی گئی۔ کولکتہ‘ بمبئی‘ احمد آباد اور دیگر شہروں میں بے شمار نئے کارخانے قائم ہوئے‘ خصوصاً سوتی کپڑے کے۔ اس کے علاوہ بہار میں ٹاٹا کے لوہے کے کارخانے نے تیزی سے ترقی کی تھی۔ اس عمل نے ہند میں صنعتی سرمایہ دار اور صنتی مزدور طبقے کو جنم دیا تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد برطانوی سرکار نے ہندوستانی سرمایہ داروں کی رعایتیں ختم کردیں اور انگلستان کے کارخانوں کا تیار شدہ سستا مال دوبارہ ہندوستان کی منڈیوں میں پھیلایا گیا۔بے شمار کارخانے بند ہو گئے اور سینکڑوں مزدوروں کی چھانٹی ہوئی۔ یہ دیسی سرمایہ دار طبقہ نہ صرف کانگریس میں شامل تھا بلکہ بڑا اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے گاندھی اس طبقے کی اُمنگوں کے ترجمان بن گئے تھے۔یہ سرمایہ دار طبقہ اپنی تجارتی رعایتیں دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سرکار پر دبائو ڈالنے کے لیے اسے عوامی طاقت کی ضرورت تھی۔ملک میں پھیلی ہوئی مہنگائی‘ بے روزگاری اور غربت کے باعث کسان‘ مزدور اور متوسط طبقے کے لوگ مضطرب و بے چین تھے۔ ان کے اس غم و غصے کا کانگریس کے سرمایہ دار اور بیرسٹر طبقے نے پورا فائدہ اٹھایا۔ کانگریس کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے گئے‘ ممبر شپ فیس چار آنے کردی گئی‘ پہلی بار عام لوگ کانگریس کے رکن بنے۔ خلافت کمیٹی اور کانگریس کی رہنمائی میں سول نافرمانی کی تحریک پورے ہندوستان میں زورو شور سے چلنے لگی۔
......
تحریک سودیشی پہ مجھے وجد ہے اکبر
کیا خوب یہ نغمہ ہے چھڑا دیس کی دُھن میں
.....

دُھن دیس کی تھی جس میں گاتاتھا اک دہاتی
 بسکٹ سے ہے ملائم پوری ہو یا چپاتی
                            اکبر الہٰ آبادی
    برطانیہ کے بے رحمانہ معاشی استحصال‘ جنگ کی تباہی‘ ترکی اور عرب ممالک پر انگریز کے جارحانہ حملے‘ جلیان والا باغ میں قتلِ عام اور ہند میں برطانوی افسروں اور پولیس کی بربریت نے عوام میں انتہائی جوش و خروش پیدا کردیا تھا۔ دوسری جانب امیر سیاست دان عوام کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ اگر انہوں نے اس جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عدم تشدد کا راستہ اپنایا تو آخرکار وہ اپنی اخلاقی قوت سے انگریز کا ظلم ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ تحریک غیر ملکی حملہ آور کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ایک مضبوط کڑی بن سکتی تھی۔ لیکن اس تحریک کے رہنمائوں کے سامنے کوئی طویل المعیاد پروگرام نہیں تھا‘ نہ انہوں نے عوام کی جدوجہد کی صلاحیت کو اس نقطۂ نظر سے منظم کیا تھا۔ دکھوں کی ماری ہندوستانی جنتا اس نئی قسم کی جدوجہد کے راستے پر چلنے لگی۔ لاکھوں کی تعداد میں ہندو‘ مسلمان اور سکھ اس تحریک میں شامل ہوئے۔ برطانوی کپڑے کا بائیکاٹ کیا گیا اور کھادی قوم پرستی کا نشان بنی۔ پورے ہند میں ہزاروں طالب علموں نے سرکاری اور مشنری تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا‘ وکیلوں نے وکالت ترک کی‘ سرکاری اور پولیس اہل کار بھی نوکریاں چھوڑنے لگے۔ پولیس لاٹھی چارج کرتی‘ جلسے اور مظاہرے توڑتی‘ لیکن اس کے باوجود ہزاروں لوگ بڑی جرائت سے گرفتاری پیش کیا کرتے تھے۔ جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھر گئی تھیں۔ حسرت موہانی کہتے ہیں کہ ۔
’1921کا وہ دور تھا جب کہ ملک قانون شکنی کے لیے بالکل تیار تھا۔ ہندومسلم متحد ہورہے تھے اور تحریک عدم تعاون شہروں اور قصبوں سے گزر کر دور دراز کے دیہاتوں تک پہنچ چکی تھی‘۔
    محمد علی جوہر کے زیرصدارت 9,8 اور 10 /جولائی 1921کو خلافت کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی اور اس میں برطانوی پالیسی کی مخالفت میں کئی قراردادیں منظور کی گئیں۔ اس کے فوراً بعد علی بردران‘ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور کئی دوسرے رہنما گرفتار کر لیے گئے۔ 26/ستمبر 1921 کو علی برادران پر مشہور مقدمۂ بغاوت خالق دینا ہال کراچی میں شروع ہوا۔ اسی دوران ابوالکلام آزاد ‘ ظفر علی خان‘ موتی لال نہرو‘ لاجپت رائے اور جواہر لال نہرو وغیرہ سب گرفتار کرلیے گئے۔ آزاد پر نومبر1921میں مقدمۂ بغاوت چلایا گیا۔ انہوں نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا‘ لیکن آخر میں وہ بیان دیا جو قولِ فیصل کے نام سے مشہورہے۔ گاندھی نے جنوبی ہند میں 21 /ستمبر 1921کو غریب کسانوں کی طرح مختصر لباس پہننا شروع کیا اور اپنے آپ کو عوام جیسا بنانے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے دوران جب برطانیہ کاپرنس آف ویلز نومبر 1921 کو ممبئی پہنچا تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر انگریزفوج اور پولیس کی فائرنگ سے 53ہندوستانی اپنے ہی وطن کی سرزمین پر قتل کردیئے گئے۔
    کانگریس کا سالانہ اجلاس جب 1921میں احمد آباد میں منعقد ہوا تو حسرت موہانی نے نوآبادیاتی درجے کے بجائے ہندوستان کی مکمل آزادی کی تجویز پیش کی‘ جس سے کانگریس کے تضادات کھل کرسامنے آگۓ۔حسرت نے کانگریس کے کھلے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ۔
    ’ہم اس وقت تک آزادی حاصل نہیں کرسکتے‘ جب تک اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حوصلہ اپنے اندر نہ پیدا کرلیں۔ ہمیں تشدد کا جواب تشدد سے دینا چاہیے۔ پولیس ہو یا فوج ہمیں اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔ انگریز اگر ہمارے سوآدمیوں کو ہلاک کریں گے تو غیر مسلح ہونے کے باوجود ہم بھی دس انگریزوں کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے سو آدمیوں کی ہلاکت کو قربانی سمجھ کر اور زیادہ جوش وخروش سے میدان میں اُتریں گے اور وہ اپنے دس آدمیوں کی ہلاکت کو قتل تصور کریں گے اور سراسیمہ ہو جائیں گے۔ آزادی بڑی سے بڑی قیمت مانگتی ہے اور ہم یہ قربانی دینے کا تہیہ کرچکے ہیں‘ ہم توپ کا جواب تفنگ سے دیں گے اور اس وقت تک میدان نہیں چھوڑیں گے‘ جب تک انگریز اس ملک سے رخصت نہ ہو جائیں‘ ۔
     گاندھی نے اس تجویز کو بڑی غیر ذمہ داری کا اظہار قرار دے کر اس کی سخت مخالفت کی اور اسے مسترد کروا دیا۔ گاندھی نے کہا کہ حسرت کی مکمل آزادی کی تجویز ہمیں اس سمندر میں لے جارہی ہے‘ جس کی گہرائی کا ہمیں اندازہ نہیں۔
    اس تقریر کے کچھ دن بعد حسرت بغاوت کے جرم میں گرفتار کرلیے گئے اور انہیں پانچ سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ اسی لیے تو حسرت نے کہا تھا کہ
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کبھی خدمتِ انگریز نہ کرتے
....
قوت کو جو پوچھو تو یہ ہوتی ہے ہمیشہ
اقوام میں افراد کے ایثار پہ موقوف
....
جسے کہتے ہیں اہنسا اک اصولِ خودکشی تھا
عمل اس پہ کوئی کرتا نہ کبھی عوام کرتے
    تحریکِ سول نافرمانی ہندوستان کے طول و عرض میں تیزی سے پھیل گئی تھی۔ اس کی شدت نے برطانوی سرکار کو خوف زدہ کردیا تھا ۔ کانگریس کے ساہوکاروں‘ سرمایہ داروں اور بیرسٹروں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہندوستانی عوام میں انگریزی راج کے خلاف اس قدر غم وغصہ ہے۔ عوام کے جوش و خروش نے انہیں بھی ڈرا دیا تھا۔ اسی لیے گاندھی نے ایک عوامی جلسے میں کہا تھا کہ لوگوں کو ستیہ گرہ کا مشورہ دے کر انہوں نے ’ہمالیہ برابر بھول کی ہے‘۔ اس امیر طبقے نے برطانوی راج کی وجہ سے یہ دولت کمائی تھی‘ وہ تو برطانیہ کے احسان مند تھے اور اس کی سرپرستی اور معاونت چاہتے تھے۔ ان کی جدوجہد کا مقصد تو فقط رعایتوں کا حصول تھا۔ گاندھی اسی امیر طبقے سے انتہائی قریب تھے۔ وہ اس تحریک سے فرار کی راہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ انہوں نے 1921 میں تحریک سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے سوراج سے بو آنے لگی ہے‘۔ ﴿13﴾
    سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہو کر گائوں کے کسان‘ زرعی مزدور اور بے روزگار دست کار بھی بڑھتے ہوئے ٹیکسوں ‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ ہر صوبے کی قومی جدوجہد میں علاقائی مطالبات بھی شامل ہو گئے تھے۔ حیدرآباد دکن اور صوبہ متحدہ میں کسان تحریکیں منظم ہونے لگیں۔ جنوبی ہند کے علاقے مالابار کے موپلہ کسان بھی ٹیکسوں کی زیادتی اور بڑے زمین داروں کے مظالم کے خلاف اگست 1921 سے احتجاج کرنے لگے۔ بڑے زمین داروں اور پولیس نے جب کسانوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی تو کسانوں نے بڑی جرائت سے مزاحمت کی۔ زبردست تصادم ہوا۔ اس علاقے میں غریب موپلہ کسان مسلمان تھے اور بڑے زمین دار ہندو۔ اس تضاد کا انگریز سرکار نے پورا فائدہ اٹھایا۔ کسانوں کو کچلنے کے لیے فوج بھیجی گئی۔ فوج کے ظلم نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہ مزاحمت پورے علاقے میں پھیل گئی۔ کہیں ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی گئیں اور کہیں ریلوے اسٹیشن جلا دیا گیا۔ کہیں ظالم زمین داروں اور ان کے کارندوں سے لڑائی لڑی گئی اور کہیں جم کر انگریز فوج کا مقابلہ کیا گیا۔ اس لڑائی میں ایک انگریز افسر بھی مارا گیا۔
    غیر ملکی حملہ آور سرکار نے انہیں کچلنے کے لیے غلام گورکھا سپاہی‘ گڑھ والی فوج اور برما سے ان فوجیوں کو طلب کیا جو مسلمان نہیں تھے اور جنہیں پہاڑوں اور جنگلوں میں لڑائی کا خوب تجربہ تھا۔ اس غلام ہندوستانی فوج نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ جنوری 1922کو دشمن انگریز کی سرسری فوجی عدالت کے حکم سے بائس موپلہ کسان رہنمائوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ ہزاروں موپلہ کسان زخمی ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ 100 موپلہ کسانوں کو مال گاڑی کے ایک بند ڈبے میں مدراس کے انتہائی گرم موسم میں روانہ کیا گیا۔ ان میں سے 66موپلہ کسان دم گھٹنے سے مر گئے۔ گوری سرکار کے اخلاقی قوانین کے مطابق کالے ہندوستانیوں کو کسی بھی طرح قتل کیا جاسکتا تھا۔ سخت سنسر نافذ کر کے اس کارروائی کو کافی عرصے تک چھپایا گیا۔ جب موپلہ کسانوں کی تحریک مکمل طور پر کچل دی گئی تو غیر ملکی حملہ آور نے اسے ایک الگ رنگ میں پیش کیا۔ خود سرکار نے اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر خوب پبلیسٹی کی۔ اس مہم میں تمام سرکاری اخبارات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ ظاہر کیا گیا کہ بے چارے ہندوزمین دار مسلمان کسانوں کے ظلم کا شکار ہوئے اور اس کا انتقام لینے کے لیے ہندو فوج نے بے چارے مسلمان کسانوں پر تشدد کیا۔ برطانوی سرکار سول نافرمانی کی راج دشمن تحریک چلانے پر ہندوستان کو کڑی سزا دینا چاہتی تھی۔ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانا ہندوستانی سیاست میں انگریز کا سب سے کامیاب اور موثر حربہ ثابت ہوا تھا۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں موپلہ کسانوں کی مذمت میں ایک قرار داد پیش کی گئی تو حسرت موہانی اور کچھ ارکان نے اس کی سخت مخالفت کی‘ لیکن گاندھی اور ان کے ہم نوائوں نے موپلہ کسانوں کے خلاف یہ قرارداد پاس کردی۔
    گاندھی سول نافرمانی کی تحریک سے بیزاری کا اظہار کئی بار کرچکے تھے۔ 17/نومبر 1921کو کچھ معمولی جھگڑے ہوئے تو گاندھی نے صوبہ گجرات کے ایک چھوٹے سے شہر بردولی میں ٹیکس ادا نہ کرنے کی ایک تحریک میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔ اس دوران عوام کی نگاہوں سے دور ہندوستانی بڑے سرمایہ دار اور برطانوی سرکار کے درمیان چند مراعات دینے پر سمجھوتہ ہوچکا تھا۔ اس لیے سول نافرمانی کی تحریک کو ختم کرنا ضروری تھا۔ اس تحریک کے سب پُرجوش رہنما ملک کی مختلف جیلوں میں سزا کاٹ رہے تھے لیکن گاندھی کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے گاندھی کو وسیع اختیارات دے دیے تھے۔ وہ قدم بہ قدم پیچھے ہٹ کر تحریک کو ختم کردینا چاہتے تھے۔ اتنے وسیع و عریض ملک میں اور اتنی پُرجوش تحریک میں نت نئے ہنگامے جنم لیتے تھے۔4/فروری 1922کو گورکھ پور کے قریب چوراچوری کے گائوں میں پولیس والوں نے غیر مسلح مظاہرین کا پہلے مذاق اڑایا اور پھر ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی‘ کئی مظاہرین مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ اس پر مشتعل ہجوم نے تھانے کو جلا دیا۔ عوام پر فائرنگ کر کے پولیس والے اس تھانے میں چھپ گئے تھے۔ کئی پولیس والے بھی جل کر مر گئے۔ اس واقعہ سے فائدہ اٹھا کر اور دوسرے رہنمائوں سے مشورہ کیے بغیر گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریک کو اچانک ختم کردینے کا اعلان کردیا۔ کئی اسیر رہنما ناراض ہو کر جیلوں میں احتجاج کرتے رہے‘ لیکن گاندھی نے ایک نہ سنی۔ برطانوی سرکار‘ سرمایہ دار‘ اور جاگیردار طبقے نے سکھ کا سانس لیا۔ اب کئی دہائیوں تک وہ خطرہ ٹل گیا‘ جس کا تصور بھی سوہانِ روح تھا۔ کیونکہ جب کوئی بڑی عوامی تحریک ایسی سیاسی خودکشی کرتی ہے تو پھر ایک طویل عرصے تک کسی نئی تحریک کا پنپنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گاندھی کا یہی طرزِ سیاست بڑے سرمایہ داروں اور ساہوکاروں کو پسند آگیا تھا۔ اسی لیے ہندوستان کے طاقتور سرمایہ دار پریس نے انہیں مہاتما بنا دیا تھا‘ ایسا مہاتما جو سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہو۔
    ہندوستان بھر میں عوام نے گاندھی کے اس بزدلانہ فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ کئی علاقوں میں تحریک جاری رہی۔ ہزاروں سیاسی قیدی جیلوں میں سخت سزائیں کاٹ رہے تھے۔ ہزاروں طالب علم جنہوں نے سرکاری اور مشنر ی تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا تھا‘ انہیں دوبارہ داخلہ نہیں مل سکا تھا۔ وہ لوگ‘ جنہوں نے سرکاری اور پولیس کی ملازمتیں چھوڑی تھیں‘ ان کے ذریعۂ معاش کا خیال رکھنا کسی سرمایہ دار کا فرض نہیں تھا۔ ملک انتہائی مایوسی کے اندھیرے میں ڈوب گیا۔ گاندھی کا فلسفۂ عدم تشدد برطانوی سامراج کے لیے فلسفۂ رحمت ثابت ہوا۔ سول نافرمانی کی تحریک ختم کردی گئی تھی۔ اب کسی گرفتاری کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ لیکن گاندھی کو گرفتار کر کے 10/مارچ1922 کو بغاوت کے جرم میں چھ سال کی سزا دی گئی تاکہ ان کی سیاسی افادیت قائم رہے۔ لیکن سزا پوری ہونے سے پہلے ہی انہیں 1924میں رہا کردیا گیا۔1857کی جنگِ آزادی کے بعد ‘ غیر ملکی حملہ آور کے خلاف یہ پہلی عوامی تحریک تھی جس میں بلاامتیاز مذہب و ملّت ہر طبقے کے ہندوستانی شریک ہوئے۔ یہ تحریک آزادی کی عظیم جدوجہد میں تبدیل ہونے کی تمام صلاحیتیں رکھتی تھی‘ لیکن اسے ہندوستانی سرمایہ دار طبقے نے خودتباہ کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’کانگریس کی ممبر شپ جس تیزی سے بڑھی تھی‘ اسی تیزی سے گری۔ یہ دس لاکھ سے گھٹ کر دس ہزار رہ گئی‘۔ ﴿15﴾ گاندھی نے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور عوام کو بہلانے کے لیے آشرم بنانے‘ چرخا کاتنے اور تعلیم پھیلانے کے پُرامن اخلاقی و روحانی کاموں میں مصروف ہو گئے۔ اسی لیے تو حسرت نے کہا تھا کہ
گاندھی کی طرح بیٹھ کر کیوں کاتیں چرخہ
لینن کی طرح دیں گے نہ دنیا کو ہلاہم
    ہندوستان کا یہ بے مثال عوامی اتحاد مایوسی و ناامیدی کے اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔ برطانوی سرکار‘ اس کی دیسی پولیس اور راج کے وفاداروں نے مل کر نفرت کی آگ بھڑکائی‘ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع کروایا گیا۔ اب انگریز کی چھائونیاں جلنے کی بجائے غریب ہندوستانیوں کی جھونپڑیاں جلنے لگیں۔ یہی اہنسا کے فلسفے کا مخفی مقصد اور منطقی نتیجہ تھا۔ اس دور کے ہندوستان میں بڑی جان لیوا اداسی تھی۔ شہر شہر اور گائوں گائوں اس گہرے دکھ اور ذلت کے سائے تھے۔ ملک کا نوجوان اور طالب علم اسی یاس اور بے حسی کے ماحول میں پروان چڑھا تھا۔ مادرِوطن کے شیدائی اور اپنے ہم وطنوں کے دکھ پر تڑپ اٹھنے والے‘ آزادی و خودمختاری کے لیے نئی جہتوں اور نئے راستوں کی جستجو کررہے تھے ۔ یہی وہ تیس کروڑ غلاموں کا دیس ہندوستا ن تھا‘ جہاں بھگت سنگھ اور اس کے نوجوان ساتھیوں نے ہوش سنبھالا اور اس کا گہرا اثر قبول کیا۔

No comments:

Post a Comment