Nov 17, 2009

Ghadar Party

غدر پارٹی

    ’کتے اور ہندستانی اندر نہیں آسکتے‘ کے نوٹس لگا کر ہند میں راج کرنے والے ہندوستانیوں سے جس نفرت اور حقارت کااظہار کرتے تھے۔ اس نے وطن سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں غیر ملکی غلامی کے خلاف بغاوت کا جذبہ پروان چڑھایا تھا۔ گورا شاہی سے نجات حاصل کرنے کے لیے نئی راہیں تلاش کی جارہی تھیں۔ بنگال میں قوم پرستوں نے انگریز کے خلاف ہتھیار اٹھالیے تھے۔ ان حالات میں ہند کی سرزمین سے بہت دور شمالی امریکا میں غدر پارٹی قائم کی گئی۔ روٹی اور روزگار کی تلاش میں سینکڑوں محنت کش جن میں سے اکثر کا تعلق پنجاب سے تھا‘ بحری جہازوں میں کام کرتے ہوئے کینیڈا اور سان فرانسیسکو پہنچ گئے تھے۔ شمالی امریکہ میں افریقہ سے گرفتار کر کے لائے گئے‘ نیگرو نسل کے افراد کے ساتھ بدترین نسلی امتیاز برتا جاتا تھا۔ ہندوستانیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روارکھا گیا۔ہندوستانیوں کو یہ احساس ہوا کہ چونکہ وہ ایک غلام ملک کے شہری ہیں‘ اس لیے ان کے تحفظ کے لیے حکومت ہند کوئی قدم نہیں اٹھاتی ہے۔ انہیں ہوٹلوں‘ بسوں‘ ریلوں‘ اسکولوں اور اسپتالوں میں امریکی گوروں کے نسلی کلچر کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان محنت کشوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی یونینز قائم کیں۔ 13/ اپریل 1912کو ہندوستانیوں کی ایک متحدہ تنظیم‘ یونین آف دی انڈین ورکرز آف پیسفیک کوسٹ قائم کی گئی۔ انہوں نے ایک اُردو ہفت روزہ‘غدر‘ نکالا جو بعدمیں ہندی‘ پنجابی ‘ گجراتی بنگالی اور مراٹھی میں بھی چھپنے لگا۔ غدر اخبار میں ہندوستانی عوام کو درپیش مسائل پر مضامین لکھے جاتے تھے۔ غدر اخبار اپنے آپ کو انگریزی راج کا دشمن کہتا تھا۔ اسی اخبار کے نام کی وجہ سے ان کی تنظیم غدر پارٹی کہلانے لگی۔ وہ غدر اخبار کو بحری جہازوں کے ذریعہ ہندوستان بھیجنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں یورپ اور امریکہ کے مزدوروں میں سوشلسٹ نظریات مقبولیت حاصل کررہے تھے۔ ہندوستان میں بھی غربت‘ بے روزگاری‘ قحط اور بیماری کا راج تھا۔ غدر پارٹی کے کارکنوں کوبھی ان نئے خیالات میں ہندوستان کے مسائل کا حل نظر آیا۔
    ان ہی دنوں ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سینگاپور میں آباد ایک ہندوستانی بابا گردیت سنگھ نے ایک جاپانی بحری جہاز کاما ۔گاٹا ۔مارو کرایے پر حاصل کیا۔ یہ جہاز سینگاپور اور آس پاس کے علاقے میں آباد ہندوستانیوں کو لے کر وینکوور کینیڈا پہنچا‘ لیکن وہاں کی انگریز سرکار نے ہندوستانیوں کے کینیڈا میں داخلے پر بابندی عائد کردی۔ وہ دو ہفتے تک حکام سے مذاکرات کرتے رہے‘ جو آخر کارناکام ہو گئے۔ جہازواپس روانہ ہوا‘ لیکن سینگاپور اور ہانگ کانگ کی بندرگاہوں پر برطانوی حکام نے اس جہاز کو داخل نہیں ہونے دیا۔ اس لیے اس علاقے میں رہنے والے تمام مسافر اپنے گھر نہ جاسکے۔ یہ جہاز 29/ ستمبر 1914 کو کولکتہ پہنچا۔ اسی دوران برطانوی خفیہ پولیس نے اس کے مسافروں کو خطرناک انقلابی قرار دے کر ‘ ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کولکتہ میں جہاز کے مسافروں کو حکم دیا گیا کہ وہ فوراً ٹرین میں سوار ہو جائیں جو انہیں پنجاب لے جائے گی۔ جہاز کے مسافر کینیڈا‘ سینگاپور اور ہانگ کانگ کے برطانوی حکام کے سلوک کی وجہ سے پہلے ہی بہت غصے میں تھے۔ ان ناراض مسافروں نے گردیت سنگھ کی قیادت میں برطانوی سرکار کے فیصلے کے خلاف کولکتہ کی سڑکوں پر جلوس نکالا۔ انگریز افسروں کے حکم سے جلوس پر فائرنگ کی گئی۔ ہندوستان کی زمین پر غیر ملکی انگریز نے 18 ہندوستانی مسافروں کو قتل کردیا اور بہت سے مسافر زخمی ہوئے۔ باقی مسافروں کو پولیس نے گرفتار کر کے ٹرین میں پنجاب روانہ کردیا لیکن گردیت سنگھ اور کچھ دوسرے مسافر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
    اس واقعے سے شمالی امریکہ میں آباد ہندوستانیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ یورپ کے سامراجیوں کے درمیان پہلی جنگِ عظیم جاری تھی۔ برطانیہ کئی محاذوں پر الجھا ہوا تھا۔ جنگ عموماً برسرِاقتدار طبقے کی تباہی کا باعث بھی بنتی ہے اور اکثر اہم سیاسی و معاشی تبدیلیاں بڑی جنگوں کے بعد جنم لیتی ہیں۔ غدر پارٹی کا خیال تھا کہ یہ برطانوی راج کے خلاف بغاوت کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ امریکہ میں آباد ہندوستانیوں کو اس تحریک میں شامل کرنے کے لیے جلسے منعقد کیے جانے لگے‘ جس میں لالہ ہردیال‘ مولوی برکت اللہ اور بھگوان داس وغیرہ تقریریں کرتے تھے۔ غدر پارٹی کے اراکین نے پنجاب کے مختلف شہروں میں تعینات دیسی فوج میں شامل اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو خطوط لکھے اور اس بغاوت میں شریک ہونے کی اپیل کی‘ ان کے کئی خطوط پولیس نے پکڑ لیے۔ امریکہ سے غدر پارٹی کے اراکین دو جاپانی جہازوں تو شامارو اور مریلما۔ مارو کے ذریعے سینگاپور اور ہانگ کانگ میں ہندوستانی فوجیوں سے ملتے ہوئے ہند پہنچے۔ان میں نوجوان کرتار سنگھ سرابھابھی شامل تھا۔ کرتار سنگھ سرابھا 1896میں تحصیل لوھیانہ کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ جس زمانے میں اس نے میٹرک پاس کیا‘ اس کے گائوں کے کئی لوگ غدر پارٹی میں شامل ہوکر سان فرانسیسکو جارہے تھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ امریکا چلا گیا۔ وہاں وہ غدر پارٹی اور اس کے اخبار غدر میں کام کرنے لگا۔ وہ تقریباً دو سال بعد غدر پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ہندوستان واپس آیا۔ غدر پارٹی کے کارکنوں کا خیال تھا کہ انہیں لاہور‘امرتسر اور لائل پور میں عوامی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے برطانوی سرکار کے خلاف کئی خفیہ سیل قائم کیے اور وہ میرٹھ‘ الہٰ آباد‘ بنارس اور لکھنؤ میں ہندوستانی فوجیوں سے بھی ملے۔
    انہوں نے 21/فروری 1915کو ایک ساتھ کئی چھائونیوں میں بغاوت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ برطانوی خفیہ پولیس کا ایک مخبر کرپال سنگھ شمالی امریکا کی غدر پارٹی میں شامل ہوچکا تھا۔ اس لیے ابتدا سے برطانوی سرکار کو اس منصوبے کا علم تھا اور اس نے بغاوت کو سختی سے کچلنے کی تیاری کرلی تھی۔ اسی تاریخ کو بغاوت ہوئی لیکن ناکام بنا دی گئی۔ سینکڑوں لوگ گرفتار ہوئے۔ ان کے لیڈر راس بہاری اور کرتار سنگھ سرابھا فرار ہو گئے اور دوبارہ بغاوت کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ وہ سرگودھا چھائونی سے ایک میٹنگ کے دوران پکڑے گئے۔ برطانوی سرکار نے سرسری فوجی عدالت میں مقدمے چلائے اور اس تحریک میں حصہ لینے والوں کوسخت سزائیں دیں۔ 145 ہندوستانیوں کو پھانسی دی گئی‘ جن میں 62 فوجی تھے۔ کالے پانی کی سزا پانے والوں میں 190 فوجی تھے۔ انہیں ماندلے ﴿برما﴾ اور جزیرہ انڈمان کی جیلوں میں نظربند کردیا گیا‘ جہاں اکثر قیدی پولیس تشدد سے ہلاک کردیے جاتے تھے۔ برطانوی سامراج نے بڑی بے رحمی اور سفاکی سے اس تحریک کو کچل ڈالا۔ اس کا پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں پر گہرا اثر پڑا---پنجاب میں انگریز کی یہ بربریت کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں 1870-1860 کے دوران ایک سکھ کو کا تحریک منظم ہوئی تھی۔ یہ ایک مذہبی تنظیم تھی جو برطانوی راج کے بھی خلاف تھی۔ یہ 1872 تک مسلح بغاوت کی صورت اختیار کر گئی۔ برطانوی سرکار نے اسے نہایت سختی سے دبا دیا۔ 17 /جنوری 1872 کو ’کوکے آں داکلار‘ میں عوام کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہزاروں فوجیوں اور عام لوگوں کے سامنے 65 کوکائوں کو توپوں سے اڑا دیا گیا تھا۔ یہ برطانوی فاشسٹ سامراج کا انتقام تھا۔
    پنجاب کی برطانوی سرکار نے ’پہلے لاہور سازش کیس‘ کے تحت غدر پارٹی کے قوم پرستوں پر مقدمہ چلایا۔ کرتارسنگھ سرابھانے مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان میں کہا کہ اس کی پارٹی انگریز حکومت کوہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہتی ہے کیونکہ یہ سرکار تشدد اور ناانصافی پر قائم ہے۔ اس نے لندن میں پھانسی کی سزاپانے والے مدن لال دھینگڑا کا بیان دہرایا کہ
’جو ملک غیر ملکی سنگینوں کی نوک سے دبا ہوا ہے‘ وہ ہمیشہ جنگ کی حالت میں ہوتا ہے‘۔
    کرتارسنگھ سرابھا کو بیان بدلنے کا مشورہ دیا گیا‘ لیکن اس نے انکار کردیا۔ اسے 16/نومبر 1915 کو پھانسی دی گئی۔ اس وقت اس کی عمر 19 سال تھی۔ اس نے پھانسی پر لٹکائے جانے سے پہلے کہا تھا کہ
’میری آرزو صرف اتنی ہے کہ میرا ملک آزاد ہو جائے۔ میں نے جو کچھ بھی کیا‘ اس کا مقصد یہی تھا۔ میں نے کبھی کسی شخص‘ ملک‘ مذہب یا طبقے سے متعلق نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ میری صرف ایک تمنا ہے. آزادی۔‘
    یہ آسمان جیسی وسعت رکھنے والی جوانی کی آواز ہے‘ جو تنگ دلی‘ تنگ نظری اور اندیشوں سے بے نیاز ہوتی ہے۔ یہ تھا وہ کرتارسنگھ سرابھا اور اس کی غدر پارٹی جن کی بہادری اور قربانیوں کی کہانیاں سن کر بھگت سنگھ بڑا ہوا تھا۔


No comments:

Post a Comment