Nov 26, 2009

Europe's New Industrial Investment System

یورپ کا نیا صنعتی سرمایہ داری نظام
    نئے تجارتی اورصنعتی نظام نے صدیوں سے قائم زمین داری سماج کو شکست دے کر یورپ میں اپنے قدم جمالیے تھے۔ اب ایشیائی اورافریقہ پہنچنے والے تاجر اور ملاح صرف گرم مصالحے‘ ریشم اور کپڑے کے بیوپاری نہیں تھے۔ نئی مشینوں کی ایجاد نے تجارتی تقاضوں کے رنگ و روپ کو بدل دیا تھا۔ مشینوں سے اب زیادہ سے زیادہ چیزیں تیار کی جا سکتی تھیں۔ اب انہیں ایسی نو آبادیات کی ضرورت تھی۔ جہاں وہ اپنا تیار شدہ مال بغیر کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بیچ سکیں اور اپنی فیکڑیوں کے لئے سستے داموں خام مال اور معدنیات حاصل کر سکیں۔ اب تیزی سے دولت کمانے کی نئی تیکنیک ان کے ہاتھ میں تھی اور بقیہ دنیا اس بدلتی ہوئی صورت ِ حال کی سنگینی سے بے خبر تھی۔ بے خبری جہالت ہی کی ایک صورت ہے۔
    ایشیا کی کمزور ریاستیں اور بادشاہتیں‘ فرسودہ و جابر زمین داری نظام‘ مذہب و نسل کی بنیاد پر منقسم قومیں ان کا نہایت آسان شکار تھیں۔ اب مارکو پولو کے لکھے گئے جھوٹے یا سچے سفر نامے پر حیرت زدہ ہونے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔ سونے کی چڑیا ہند اب نئے حملہ آور برطانیہ کے پنجرے میں قید تھی۔ ہند پر قابض منگول شکست کھا چکے تھے۔ دنیا قدیم حملہ آوروں. فرعونوں‘ رومیوں‘ یونانیوں‘ ایرانیوں ‘ عربوں ‘ ترکوں اور منگولوں کے بعد‘ اب نئے یورپی حملہ آوروں کی زد میں تھی۔ ان کے ہاتھ میں ایک نئے فلسفے اور نئے مذہب. صنعتی سرمایہ داری سامراجیت کا پرچم تھا۔ ایشیا کے آسمانوں پر یورپ کے گدھ منڈلا رہے تھے۔ بحرِ ہند اور بحرِ الکاہل کے وسیع نیلے سمندورں پر نئے بحری قزاق ‘ نئے پروگرام اور نئی حکمتِ عملی کے ساتھ منڈیوں کے لئے ایک نئی جنگ لڑ رہے تھے جو ساری پرانی روایتی جنگوں سے مختلف تھی۔
    ایشیا‘ افریقہ‘ شمالی اور جنوبی امریکہ ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے برِ اعظموں میں آباد قومیں‘ یورپ کے اس حملے کے لئے تیارنہیں تھیں۔ ان کی بے خبری‘ کم آگاہی‘ کمزوری اور شکست نے طویل غلامی کی سیاہ رات کو کئی ملکوں‘ قوموں اور نسلوں کا مقدر بنا دیا۔ چین جیسا بڑا ملک بھی اپنی کمزوریوں کے باعث ذلت اور غلامی سے دوچار تھا۔ کل تک کوریا‘ ویت نام اور تھائی لینڈ وغیرہ سے خراج وصول کرنے والے ملک کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ بے بسی و مجبوری و غلامی کسے کہتے ہیں۔ یورپی تاجروں اور فوجوں کی ہوس زر اور زمین نے حالیہ چند صدیوں کے دوران مادرِ گیتی پر ایک نیا المیہ تصنیف کیا ۔ یورپی اقوام اب یورپ میں ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے امریکہ ایشیا اور افریقہ کی طرف اپنے جنگی جہازوں میں رواں دواں تھیں۔ ہر ایک کو زمین چاہیے تھی۔ ہر ایک کو بندرگاہوں اور کھلی منڈیوں کی ضرورت تھی۔ ہر ایک خاص رعایتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ہر یورپی ملک ’سب سے زیادہ پسندیدہ ملک‘ کا درجہ حاصل کرنے کے لئے بے چین تھا۔ ان کی جدید پروپیگنڈہ مشینری نے اسے ’آزاد تجارت‘ کا نام دیا تھا۔
    سولہویں صدی سے یورپی اقوام کی آمد کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ 1516 میں پرتگیزی چین آئے۔ اس کے بعد 1552 میں روسی‘ 1575 میں ہسپانوی‘ 1604 میں ولندیزی‘ 1637 میں برطانوی اور 1784 میں امریکی آئے۔ سب کا مقصد ایک تھا۔ تجارت کرنااورسفارتی تعلقات قائم کرنے کے بہانے ملک کے وسائل کا استحصال کرنا۔ پرتگیزی 1553 میں میکائو پر قابض ہو گئے۔ ولندیزی جب چین پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو ئے تو انہوں نے فارموسا پر سترہویں صدی میں قبضہ کر لیا۔ زارِ روس یورپ میں اپنی مملکت وسیع نہ کر سکا تو اس نے ایشیا کی طرف اپنی سرحد پھیلانی شروع کی ۔ روس نے 1552 میں کازان پر قبضہ کر لیا۔ مسکو وی بحرِ الکاہل تک جا پہنچا۔ انہیں بھی گرم مصالحے اور فر کی تلاش تھی۔ زارکی کاسک فوجوں نے نہایت درندگی سے مقامی لوگوں کو قتل کیا۔ سترہویں صدی میں منچو حکمرانوں نے ان کے خلاف فوج بھیجی۔ ابتدائی ناکامی کے بعد انہوں نے جلد ہی روس کو شکست دے دی۔ زارنے 1685 میں ایک نمائندہ مشن بیجنگ بھیجا۔ روس اور چین کے درمیان’معاہدہ نرچنسک ‘ طے ہوا۔ پھر ایک دوسر ا معاہدہ ’کیا ختا‘ 1728 میں ہوا۔ یہ وہ ابتدائی معاہدے تھے جو چین اور کسی یورپی ملک کے درمیان ہوئے۔ ان معاہدوں کے ذریعے روس نے کئی رعایتیں حاصل کر لیں۔
افیم کے برطانوی تاجر:  بیرونی مداخلت سے پہلے چین کی اکانومی غیر ملکی سامان کی ضرورت سے آزاد تھی۔ صرف بادشاہ‘ افسر اور بڑے زمین دار پُر آسائش زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کروڑوں غریب کسان اور ہنر مند مزدور کافی تھے۔ چین کے ریشمی کپڑے کی دنیا بھر میں مانگ تھی اور تجارت کا توازن چین کے حق میں تھا۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو چین کے ساتھ تجارت میں بڑا خسارہ ہو تا تھا۔ اُسے اپنے خزانے سے چین کو کیش رقم ادا کرنی پڑتی تھی۔ برطانیہ کسی ایسے سامان ِ تجارت کی تلاش میں تھا۔ جس سے یہ تجارتی توازن اس کے حق میں ہو جائے۔ برطانیہ ہند میں بنگال اور بہار پر قابض ہو چکا تھا۔ اس نے بنگال اور بہار کے کاشت کاروں کو مجبور کیا کہ وہ چاول کی بجائے افیم کی کاشت کریں۔ ﴿چاول کی پیداوار انتہائی کم ہو جانے کی وجہ سے اس علاقے میں مسلسل قحط پڑنے لگے﴾ برطانیہ 1781 سے چین کو بڑی مقدار میں افیم فروخت کرنے لگا اور چین سے برطانوی تجارت نہایت منافع بخش ہو گئی۔ افیم کے مضر اثرات سے پریشان ہو کر چین نے 1800 میں افیم کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ لیکن برطانوی کمپنی نے ملک دشمن چینی افسروں اور تاجروں کے ساتھ مل کر بڑی مقدار میں افیم کی اسمگلنگ شروع کر دی۔ یورپی ملک برطانیہ انیسویں صدی میں افیم کا سب سے بڑا اسمگلر بن گیا۔ 1800 میں برطانوی کمپنی 2,88,000 کلو افیم اسمگل کرتی تھی۔ یہ ترقی کر کے 1838 میں288,0000 کلو ہو گئی۔ منچو بادشاہ نے ’لین زی شو ئے‘ کو اس کی روک تھام کرنے کے لئے کمشنر مقرر کیا۔ اس نے برطانوی کمپنی کی 14,40,000 کلو افیم ضبط کر کے ساحل پر کھلے عام جلوادی۔ یاد رہے کہ اس میں سے 72,000 کلو افیم امریکہ کی تھی ۔

No comments:

Post a Comment