مظالم پنجاب
میں نے امرتسر میں اک دن اپنے خواجہ سے کہا
پیٹ کے بل رینگ لیجیے بندہ پرور آپ بھی
ناک سے کچھ دن زمیں پر کھینچتے رہیئے لکیر
پھیرئے کو نچی سفیدی کی بدن پر آپ بھی
پھر یہ کہئے مارشل لا حشر تک قائم رہے
ورنہ ہوں گے منکر جنرل ادوائر آپ بھی
ظفر علی خاں
جنرل ڈائر نے پنجاب کے گورنر او۔ڈوائر سے فخریہ کہا تھا کہ اس نے پنجاب کو بچا لیا ہے اور گورنر نے ایک تارمیں ان اقدامات کی تعریف کی تھی۔ برطانیہ کے مقرر کردہ ہنٹرکمیشن نے ان کارروائیوں کو جائز قرار دیا‘ لیکن جنرل ڈائرکو بغیر پینشن کے ملازمت سے علیحدہ کردیا گیا۔ ہند میں انگریزی کلچر کا اتنا شاندار مظاہرہ پیش کرنے پر ہندوستان میں مقیم انگریزوں نے بیس ہزار پائونڈ ﴿اس زمانے کے﴾ جمع کر کے جنرل ڈائر کو بطور نذرانہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ اسے ایک جڑائو تلوار بھی تحفے میں پیش کی گئی تھی جس پر پنجاب کا نجات دہندہ لکھا ہوا تھا۔ پنجاب میں ان مظالم کے سرپرست اعلیٰ جنرل او ڈوائر کو بھلایا نہیں گیا تھا۔ ایک اکیس سال کے پنجابی نوجوان اودھم سنگھ نے انگریز سے انتقام لینے کا عہد کیا تھا۔ اس نے اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد رکھا اور وہ اس سفاک قاتل کا پیچھا کرتا رہا۔ اس نے 13/مارچ 1942کو صرف ایک انگلش گولی سے جنرل اوڈوائر کو ختم کردیا۔ ﴿8﴾
جلیان والا باغ کے قتل عام نے خوابیدہ و شکست خوردہ ہندوستان پر تازیا نے کا کام کیا۔ اہل ہند کو بیوقوف بنانے کے جتنے جتن انگریز کی نوکر شاہی نے کیے تھے‘ وہ ایک ہی وار میں ختم ہو چکے تھے۔ جنرل ڈائر اور او۔ڈوائر کی پالیسی اس عہد کی سب سے بڑی سچائی تھی۔ بقول محمد علی جوہر ڈائر کے جسم میں سامراج کی روح تھی۔ برطانیہ نے جس صوبے میں فوجی بھرتی کی تھی‘ جو انگریز کو خام مال فراہم کرنے کی ایک بڑی منڈی تھا‘ جس بازوئے شمشیر زن کی مدد سے نئی نوآبادیات حاصل کی گئی تھیں اور دوسری قوموں کا خون بہایا گیا تھا۔ اسی کو ایسی سزا دی گئی تھی‘ جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔لیکن ان مظالم نے ہندوستان میں وہ جوش و ولولہ پیدا کیا جو منظم تحریکوں کی صورت اختیار کرگیا۔ اب ہندوستان بھر میں ہر خیال‘ ہر سوچ اور ہر جذبے کا ایک ہی نام تھا. آزادی!
کم سن بھگت سنگھ نے بھی اس فائرنگ کی خبر سنی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی ٹرین سے امرتسر پہنچا۔ اس نے جلیان والا باغ میں شہیدوں کے خون میں رچی ہوئی مٹی زمین سے اٹھا کر ماتھے پر لگائی اور تھوری سی مٹی ایک شیشی میں بھرلی. پھر وہ گھر واپس آگیا۔ انگریز کے ظلم کی سب سُنی ہوئی کہانیاں‘ کیا صرف خیالی کہانیاں تھیں؟ نہیں وہ سب وہیں تھیں‘ اسی جلیان والا باغ میں‘ اس کی آنکھوں کے سامنے‘ اسی سچ کی دنیا میں۔ اس کا جی چاہا تھا کہ وہ روئے لیکن کیا اس کے آنسو ‘ اس کے ہم وطنوں کو زندگی دے سکیں گے؟ کیا اس کے آنسو ان فائرنگ کرنے والے ہاتھوں کو جلا کر راکھ کردیں گے؟. اسے احساس ہوا کہ اب یہ دنیا بدل گئی ہے۔ یہ وہ دنیا نہیں‘ جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا‘ تتلیوں اور جگنوئوں کے پیچھے بھاگا کرتا تھا۔ کسی نے اس کی ہنسی‘ اس کی خوشیاں چھین لی تھیں۔ اس کے مظلوم ہم وطنوں کا لہو‘ اس کے لہو میں شامل ہوگیا تھا۔ وہ اب جہاں بھی جائے گا‘ اس کے ہم وطنوں کا خون ہمیشہ اس کا ہم سفر رہے گا۔ اس سے سوال کرتا رہے گا‘ تم مجھے بھولے تو نہیں؟. میں وہی خون ہوں جسے تم نے زمین سے اٹھایا تھا‘ ماتھے سے لگایا تھا۔ میرے خون کی گرمی تمہیں کبھی چین نہ لینے دے گی‘ کبھی بے خبر نہ ہونے دیگی۔ اس رات بھگت سنگھ‘ اس خون میں رچی مٹی کو ہاتھ میں لیے سوچتا رہا۔ اس نے عہد کیا کہ وہ اس مٹی کی‘ اس ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کردے گا۔
No comments:
Post a Comment