Nov 18, 2009

Tehreek-e-Khilafat


تحریکِ خلافت
اعلانِ بیداری

اے ساکنانِ خطۂ ہندستاں! بڑھو !!
آگے نکل گئے ہیں بہت کارواں‘ بڑھو!
تانام ایشیا کا جہاں میں بلند ہو
کاندھے پہ رکھ کے قوم کا اونچا نشاں بڑھو!
بیٹھے ہو پائوں توڑ کے کیوں کنج غم میں تم؟
دیکھو ذرا نشیب و فرازِ جہاں‘ بڑھو!
ہم لوگ تم میں ہیں کہ جرسِ کارواں میں ہے
چلّا رہاہے طوطی‘ ہندوستاں بڑھو!
یہ نظم اخبار عام لاہور میں 10/مارچ 1883 کو چھپی تھی

 ہندکی ذلت و غلامی اور محنت کش طبقے کی غربت و زبوں حالی نے تمام محبِ عناصر کو مضطرب کردیا تھا۔ کہیں گوکھلے اور ظفر علی خاں کی احتجاجی آواز بلند ہوتی تھی تو کہیں تِلک اور حسرت موہانی کی آواز اہلِ ہند کو غلامی کے خلاف للکارتی تھی اور کہیں بنگال کے جرائت مند نوجوان عوام پر تشددکرنے والے سرکاری حکام کو گولی کا نشانہ بناتے تھے۔ دوسری جانب ہند کے مغرب میں آباد ایشیائی ممالک میں نئے طوفان جنم لے رہے تھے۔ اٹلی نے 1911 میں طرابلس پر حملہ کیا تو اس کے خلاف ہند کا پڑھا لکھا مسلمان احتجاج کرنے لگا۔ زارِ روس نے کبھی ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار قرار دیا تھا۔ اس کی یہ اصطلاح یورپ کے طاقتور سامراجیوں کو بڑی پسند آئی تھی۔ وہ ترکی کی نوآبادیات میں پھیلی ہوئی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر اس مردِ بیمار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہتے تھے۔ سازشوں اور نفرتوں کے جال پھلانے میں انگریز قوم کی فنکاری مسلّمہ ہے۔ انگریز کی سازشوں کے باعث 1912میں بلقان کی ریاستوں نے ترکی کے خلاف جنگ شروع کردی۔ غلامی کے مایوس کُن دور میں ہند کے مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ ترکی ایک آزادملک ہے اور ہند کے مغرب میں تمام ممالک یورپ کی جابرانہ حاکمیت سے آزادہیں۔ گوکہ خود عرب ممالک ترکی کے تسلط سے آزاد ہونا چاہتے تھے‘ لیکن ہندوستان کے دکھ کچھ اور تھے اور اس کے تقاضے بھی مختلف تھے۔

    محمد علی جوہر اور شوکت علی اپنے ہم خیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ محمد علی جوہر نے دلی سے کامریڈ نکالا اور ابوالکلام آزاد نے کولکتہ سے الہلال جاری کیا۔ دونوں کا مقصد اپنے ملک کے مسائل پر اظہارِ خیال کرنا اور اپنے ہم وطنوں میں بیداری پیدا کرکے انہیں جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔ جلد ہی حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر انصاری بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ اسی دور میں ایک میڈیکل مشن برائے ترکی قائم ہوا‘ جس میں علی گڑھ کے طلبہ بھی شامل تھے۔ اسی دوران مسلم لیگ 1906 میں ڈھاکا میں قائم ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمان امیر طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ اس کا فوری مقصد ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمان تعلقہ داروں‘ جاگیرداروں‘ امیر تاجروں اور وکیلوں کو برطانیہ کی قائم کردہ اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دلانا تھا۔ ان کے قائد انگریزوں کے وفادار سرسلطان محمد شاہ آغا تھے۔ محمد علی جناح1913 میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ اس زمانے میں مسلمان سیاست دان عموماً کانگریس اور مسلم لیگ دونوں پارٹیوں میں شامل ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں پارٹیوں کے ارکان کی اکثریت برطانوی سرکار کی وفادار تھی۔
    یورپی سامراجیوں کی پہلی جنگِ عظیم 1914 میں شروع ہو گئی تھی۔ انگریز ترکی سے لے کر ایران تک ہر ملک پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہاتھا۔ زبردستی کی فوجی بھرتی اور جنگ کے بھاری اخراجات نے ہندوستان میں بے چینی کو جنم دیا تھا۔ اب مسلمانوں کے علاوہ ہندوئوں کو بھی اس بات کاشدید احساس تھا کہ اگر ہند کے مغرب میں واقع تمام ممالک پر انگریز سامراج مسلط ہوگیا تو ہندوستان کی آزادی کا حصول اور کٹھن ہو جائے گا۔ علی برادران مسلسل ترکی کی حمایت کررہے تھے۔ برطانوی سرکار نے کامریڈ کی اشاعت پر پابندی عائد کردی اور اپریل 1915 میں دونوں کو گرفتار کرلیا۔ جولائی 1916میں ابوالکلام آزاد بھی گرفتار کرلیے گئے۔ 1918 میں سامراجیوں کی جنگ ختم ہوئی۔دنیا بھر کی محکوم و مظلوم قومیں سامراجی دہشت گردی اور لوٹ کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔ چین میں سن یات سین کی قوم پرست پارٹی نے قدیم بادشاہت ہمیشہ کے لیے ختم کر کے جمہوری حکومت قائم کرلی تھی۔ یورپ اور جنوبی امریکا میں سوشلسٹ تصورات مقبولیت حاصل کررہے تھے۔ روس میں زار کی جابرانہ بادشاہت دم توڑ چکی تھی اور دنیا میں مزدوروں کی پہلی سوشلسٹ ریاست قائم ہوئی تھی۔ نوآبادیات پر قبضے کی اس جنگ نے ہندوستانی عوام کو بڑے دکھ دیے تھے۔ دس لاکھ کے قریب ہندوستانی فوجیوں کو اس جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ ہند کے زرعی‘ مالی اور معدنی وسائل کوبری طرح برباد کیا گیا تھا۔ جنگ انگریز کے مفادات کے لیے لڑی گئی تھی لیکن جنگی اخراجات کے نام پر محکوم ہندوستان پر بھاری قرضوں کا بوجھ لاددیا گیا تھا۔ اس صورتِ حال کے باوجود ملک میں کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں تھی جو عوام کو آزادی کی جدوجہدکے لیے منظم کرتی۔ عرب وعراق اردن و فلسطین سب پر تاجِ برطانیہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ انگریز کے وفادار اور وطن کے غدار ہر جگہ تخت پر بٹھا دیے گئے تھے۔ عربی بھیس میں لارنس آف اریبیا‘ برطانوی سامراجی جھوٹ اور دھوکے کی منہ بولتی تصویر تھا۔ ہند میں پھیلی ہوئی سنگین سیاسی بے چینی‘ شورش اور بغاوت کی نئی راہوں کی جستجو کر رہی تھی۔





No comments:

Post a Comment