Nov 26, 2009

The Public Democratic Revolution of China

چین کا عوامی جمہوری انقلاب

    دنیا بھر کے عوام کو انقلاب‘ آزادی‘ سماجی انصاف اور امن کا پیغام دینے والے چین کے بہادر کسانوں اور مزدوروں نے ایک طویل انقلابی جدوجہد کے بعد غیر ملکی  سامراجیوں اور ظالم زمین دار طبقے کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل کی ۔ چین کے عوامی انقلاب نے کسانوں‘ مزدوروں اور کچلے ہوئے عوام کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ آج ایشیا‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ میں غیر ملکی سامراجیوں کے ظلم و استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے والی تمام عوامی تحریکیں ان نئے انقلابی خیالات سے متاثر ہیں۔ چین جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہ زمین کی وسعت اور اپنی تہذیبی ترقی کی وجہ سے بھی ایشیا کا عظیم ملک ہے ۔ چین کی تہذیب اور فلسفیانہ تصورات نے ہزاروں سال تک مشرقی ایشیا پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ اسی لئے چین کو مشرقی ایشیا کا دل کہا جاتا تھا۔
جغرافیہ اور قدیم تاریخ:
    کسی بھی ملک کی تاریخ پر اس کے جغرافیائی حالات گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ چین کے جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے عرصے تک بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھا۔اس کے مشرق میںدنیا کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر بحرالکاہل ہے۔ اس کے شمال مغرب اور جنوب میں فلک بوس دشوار گزار پہاڑوں کا سلسلہ ہے ۔ صحرائے گوبی چینی منگولیا کو آزاد منگولیا سے جدا کرتا ہے۔ چین میں سینکڑوں دریا بہتے ہیں۔ بہت سے دریا برف پگھلنے سے وجود میں آتے ہیں اور خشکی پر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ شمالی چین میں ملک کا دوسرا بڑا دریا ’حوانگ حو‘ یا دریائے زرد بہتا ہے۔ اس کی لمبائی 2700 میل ہے۔ دریائے زرد کی وادی چین کی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ اس دریا کو ’دکھوں کا دریا‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے زرد نے 26 مرتبہ راستہ بدلا ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے میں زبردست تباہی پھیلی۔ اگر شدید بارش ہوتی ہے تواس علاقے میں سیلاب آتے ہیں اور اگر بارش کم ہوتی ہے تو دریا میں پانی بہت کم ہو جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں قحط اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وسطی چین میں ملک کا سب سے بڑا اور دنیا کا تیسرا بڑا دریا ’یانگ سی‘ بہتا ہے۔ اس کی لمبائی 3400 میل ہے۔ یہ شنگھائی کے قریب سمندر میں گرتا ہے۔ اس دریا میں1500 میل تک جہاز رانی ہو سکتی ہے۔ چین کے بڑے دریائوں کے کنارے بہت سے مشہور شہر آباد ہیں۔ اس علاقے میں گھنی آبادی ہے۔ دریائے یانگ سی کی وادی میں دریائوں‘ نہروں اور جھیلوں کا جال بچھاہوا ہے۔ جنوبی چین کا علاقہ نہایت سر سبز اور شاداب ہے۔ چاول‘ چائے‘ شہتوت اور بانس خوب پیدا ہوتے ہیں۔ موسلا دھار بارش ہوتی ہے۔ مٹی زرخیز ہے۔ سال میں تین فصلیں ہوتی ہیں۔ دریائے ’چوچیانگ‘ جنوبی چین میں بہتا ہوا کینٹن کاڈیلٹا بناتا ہے۔ اس کی لمبائی 1250 میل ہے۔ اس کے بیشتر حصے میں جہاز رانی ہو سکتی ہے۔ مغربی چین کا علاقہ پہاڑی اور بنجر ہے۔ چین میں شدید سردی اور شدید گرمی کے موسم پائے جاتے ہیں۔ اس کی آب و ہوا پر مون سون ہوائیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ چین کا رقبہ 96 لاکھ کلو میٹر ہے۔ اس کی سرحدیں 20,000 کلو میٹر لمبی ہیں اور 12 ملکوں سے ملتی ہیں۔ اس کا ساحل سمندر 18,000 کلو میٹر سے زیادہ لمبا ہے۔ چین کا 2/3 حصہ پہاڑی یا پتھریلا ہے۔ چین میں بیجنگ ‘ شنگھائی‘ حانگ کانگ اور نانچنگ کے علاوہ بے شمار بڑے شہر ہیں۔
چینی سماج:  چین کے عوام اپنے علاقے اور صوبے سے گہری وابستگی رکھتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ ہزاروں سال کے عمل میں وہ سب قومی دھارے کا حصہ بن گئے ہیں۔ چینی کہتے ہیں کہ ’’چین ایک ایسا سمندر ہے‘ جس میں گرنے والے سارے دریا نمکین ہو جاتے ہیں‘‘۔ کڑوڑوں انسانوں کو صدیوں تک بہ حیثیت ایک چینی قوم متحد رکھنے کے لئے چین کے فلسفیوں‘ مدبروں اور اہل قلم نے ذہانت اور رواداری کا ثبوت دیا۔ اسی لئے آج یہ قوم ایک زبان بولتی ہے‘ چینی شہری ہونے پر فخر کرتی ہے اور اپنے کو چینی کلچر کا اٹوٹ انگ سمجھتی ہے۔ چین میں رائج مذہبی تصورات اور فلسفیانہ نظریات نے بھی اس یگانگت کو جلا بخشی ہے۔
    ابتدائی چینی سماج کے بارے میں ’مائو زے تنگ‘ لکھتے ہیں کہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ترقی پذیر چینی سماج میں بھی ہزاروں سال تک ایک غیر طبقاتی کمیون کا نظام رائج تھا۔ 4000 سال پہلے یہ نظام ختم ہوا اور ایک طبقاتی سماج نے جنم لیا۔ شروع میں غلامانہ نظام قائم ہوا۔ پھر اس کی جگہ زمین داری نظام نے لی. چینی قوم ساری دنیا میں نہ صرف اپنی قوت برداشت اور محنت کے لئے مشہور ہے بلکہ وہ ایک آزادی سے محبت کرنے والی انقلابی روایات کی حامل قوم کی شہرت بھی رکھتی ہے۔ حان قوم کی ہزاروں سال کی تاریخ میں زمین داروں کے ظلم و ستم کے خلاف سینکڑوں چھوٹی اور بڑی بغاوتیں ہوئیں۔ جن میں بے شمار قومی ہیرو اور انقلابی لیڈر ابھرے۔ یہ چین کی شاندار انقلابی روایت اور عظیم تاریخی ورثہ ہے۔‘(1)
    چین کا قدیم زمین داری نظام ’چو‘ اور ’چن‘ خاندانوں کے دور میں شروع ہوا اور 3000 سال تک قائم رہا۔ اس کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
1۔    اس دور میں خود انحصاری کا قدرتی معاشی نظام رائج تھا۔ کسان کھیتی باڑی کے علاوہ دست کاری کا کام بھی کرتا تھا۔ زمین دار پیداوار کا بیشتر حصہ خود استعمال کرتا تھا۔ اس فصل کا تبادلہ کسی اور چیز سے نہیں کیا جاتا تھا۔
2۔    حکمران طبقہ زمین داروں‘ امرائ اور بادشاہ پر مشتمل تھا۔ بیشتر زمین ان کے قبضے میں تھی۔ کسانوں کے پاس بہت کم زمین تھی یا سرے سے تھی ہی نہیں۔ پیداوار کے لئے کسان اپنے اوزار استعمال کرتے تھے۔ پچاس سے اسی فی صدی یا اس سے بھی زیادہ پیداوار مالک کے حوالے کر دی جاتی تھی۔ حقیقت میں یہ کسان نہیں بلکہ نیم غلام تھے۔
3۔    زمین دار طبقہ کسانوں سے نہ صرف کرایہ وصول کرتا تھا بلکہ کسان خراج‘ بھاری ٹیکس اور بے گار بھی ادا کیا کرتے تھے۔
4۔    زمین دار طبقے کی قائم کردہ جاگیردارانہ ریاست‘ اس استحصالی نظام کی حفاظت کرتی تھی۔ اس نظام میں طاقت بادشاہ کے ہاتھ میں تھی۔ وہ سب فوجی اور غیر فوجی افسروں کا تقرر کرتا تھا۔ اس کی حکومت کا انحصار زمین دار طبقے کی حمایت پر تھا ۔ کسان انتہائی غربت میں نیم غلامانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ زمین دار اس کی پٹائی کر سکتا تھا۔ اس کی بے عزتی کر سکتا تھا اور اگر چاہے تو قتل بھی کر سکتا تھا۔ کسانوں کی انتہائی غربت اور تنزل‘ زمین دار طبقے کے بے رحمانہ استحصال اور ظلم کا نتیجہ تھا۔ اسی وجہ سے چین کی معیشت اور سماجی زندگی میں تغیر نہ ہو سکا۔ بغا وت اسی ظلم و جبر کا نتیجہ ہے۔ چین میں ہونے والی بغاوتوں کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ یہی بغاوتیں زمین داری نظام کو کمزور کرتی ہیں۔ چونکہ اس دور میں نئی پیداواری طاقتیں‘ نئے پیداواری رشتے‘ نئی طبقاتی طاقت اور ایک نئی ترقی پسند سیاسی پارٹی موجود نہیں تھی۔ اس لئے ان بغاوتوں میں ایک صحیح قیادت کی کمی تھی۔
    چین کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہزاروں سال پہلے چینی ریاست دریائے زرد کے گرد پھیلنی شروع ہوئی۔ دو ہزار سال قبلِ مسیح ’شیا اور شانگ‘ عہد کا آغاز ہوا۔ اس دور میں چین قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ سب سے طاقتور قبیلہ کمزور قبائل کو زیر کر لیتا تھا۔ اس عہد میں پہلی بار غلامانہ نظام قائم ہوا۔ شانگ خاندان نے ایک مرکزی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ زراعت پھیلی اور ریشمی کپڑا بننے کے فن نے ترقی کی۔ کانسی کا استعمال شروع ہو گیا۔
    ’چو‘ خاندان 1122 ق م سے 221 ق م تک حکم ران رہا۔ اس دور میں زمین داری نظام کو استحکام حاصل ہوا۔ لوہے کی کلہاڑی‘ کدال اور ہل استعمال کئے جانے لگے۔ کنفوشس ‘ موھسٹ اور تائو کے نظریات وجود میں آئے۔ رزمیہ شاعری نے ترقی کی۔ محنت کش غلامی کی زنجیر توڑ کر کسان بن گئے اور زمین داروں کے ظلم کا شکار ہونے لگے۔ اس عہد میں بادشاہوں کا ملک پر فوجی کنٹرول بہت سخت تھا اور انہیں غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔
    ’چھین ۔ شی۔ حوانگ‘ نے 220 ق م سے 209 ق م تک حکومت کی۔ اس نے چین کو متحد کیا۔اسی کے نام پر ملک کا نام چین پڑا۔ اس نے بڑے زمین داروں اور سرداروں کو انتہائی سختی سے دبایا اور ایک طاقتور مرکزی حکومت قائم کی۔ وہ کنفوشس کی ماضی پر ستی کے سخت خلاف تھا۔ کیونکہ اس طرح لوگ حال اور مستقبل کے مسائل سے فرار اختیار کرتے تھے۔ اس نے کنفوشس کی کتابوں کو جلوا دیا اور اس کے نظریات کی حمایت کرنے والے دانشوروں کو زندہ دفن کروا دیا۔ 214 ق م میں عظیم دیوارِ چین کی تعمیر شروع ہوئی۔ جس کا مقصد غریب اور بھوکے قبائل کو چین میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔
    ایک عوامی بغاوت کے بعد ’حان‘ خاندان کی حکومت 206 ق م سے 220 عیسوی تک قائم رہی۔ اس دور میں کنفوشس کے نظریات دوبارہ ملک میں پھیل گئے۔ تیسری صدی میں بدھ مذہب چین میں پھیلا۔ اس دور میں تجارت نے ترقی کی اور کئی نئے شہر آباد ہوئے۔ سائنس اور ثقافت نے ترقی کی۔ چین کی پہلی عام تاریخ لکھی گئی۔ زلزلہ پیما اور فلکیات کے آلے ایجاد ہوئے۔ حان دور میں چین کے ریشمی کپڑے دنیا بھر میں مشہور ہو چکے تھے۔ درختوں کی چھال‘ سن کے ٹوٹے ہوئے رسوں اور کپڑے کے ٹکڑوں سے عمدہ کاغذ بنایا جانے لگا۔
    ’تانگ‘ خاندان نے 618 سے 906 تک حکومت کی۔ اس دور میں معاشی ترقی ہوئی۔ بارود جو پہلے ہی ایجاد ہو چکا تھا‘ لڑائی میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس خاندان کے بانی تانگ نے چین میں سول سروس کے امتحان کا نظام نافذ کیا۔ کئی ا نتظامی محکمے قائم کیے۔ فوج مرکزی حکومت کے کنڑول میں تھی۔ تانگ دور میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ کیونکہ یہ دوسری قوموں کی دولت چھیننے کا سب سے عام اور آسان طریقہ ہے۔ بادشاہوں کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ کوئی دوسرا ملک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اتنی بڑی سلطنت میں فوجی‘ معاشی اور سیاسی کمزوریاں بڑھ رہی تھیں ۔ اسی دور میں نستوری عیسائی‘ زرتشتی‘ مانی چین اور مسلمان چین آئے۔ چین کی تجارت دور دور کے ملکوں تک پھیل گئی تھی۔ چین کا تیار کر دہ سامان بغداد‘ قاہرہ اور قسطنطنیہ تک پہنچنے لگا تھا۔
    منگول ’یوآن‘ خاندان نے 1279 سے 1368 تک چین پر حکومت کی۔ وحشی منگول قبائل نے تیزی سے حملہ کر کے ’سنگ‘ شاہی خاندان کو شکست دے کر سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ ایک مشہور چینی قول ہے کہ’آپ گھوڑے پر سوار ہو کر ایک ملک فتح کر سکتے ہیں‘ لیکن گھوڑے پر سوار ہو کر ایک ملک پر حکومت نہیں کر سکتے‘ انتہائی غیر ترقی یافتہ منگولوں نے جلد ہی تمام چینی اقدار کو قبول کر لیا۔ انہوں نے ایک سخت مطلق العنان حکومت قائم کی۔ اس دور میں بھی تجارت ترقی کرتی رہی۔ چین میں بے شمار کسان بغاوتیں ہوئیں۔ آخر سو سال کے اندر ہی چینی امرائ‘ زمین داروں اور افسروں نے منگولوں سے حکومت چھین لی۔
    ’مِنگ‘ خاندان نے 1368 سے 1644 تک چین پر حکومت کی۔ اس دور میں زمین داری نظام زوال پذیر تھا۔ فیکڑیوں میں سامان تیار کیا جانے لگا ۔ ’لی شی چن‘ نے طب کی کتاب مرتب کی۔ جس میںایک ہزار آٹھ سو ادویات اور تقریباً دس ہزار نسخے درج تھے۔ اس کا کئی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس دور میں ادب نے بڑی ترقی کی۔ اعلیٰ معیار کے طویل ناول لکھے جانے لگے۔ ’چھائو شیو ئے چھین‘ کا ناول ’لال حویلی کا سپنا‘ بہت مشہور ہوا۔ منگ بادشاہت بھی مطلق العنان تھی۔ اس نے امرائ اور افسروں پر سخت کنٹرول قائم رکھا۔ اس دور میں ہجڑے بہت طاقتور ہو گئے تھے۔ شاہ ’’حونگ وا‘‘ نے ان کو کچلنے کی سخت کوشش کی۔ لیکن جب اس نے اپنے ہاتھ میں مزید طاقت سمیٹنے کے لئے 1380 میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا‘ تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہجڑوں کو ہوا۔ 1420 میں ان کی تربیت کے لئے ایک اسکول بھی قائم کیا گیا۔ وہ اتنے طاقتور تھے کہ منگ بادشاہ سے اپنی مرضی کے فیصلوں پر دستخط کروا سکتے تھے لیکن اس دور کے بعد انہیں اتنی طاقت پھر کبھی حاصل نہ ہو سکی۔ اس دور میں شمال میں منگول قبائل اور چین کے مشرقی ساحل پر جاپان اور یورپ کے بحری قزاق حملے کر رہے تھے۔
    ’منچو‘ خاندان نے 1644 سے 1912 تک چین پر حکومت کی ۔ شمال مشرق سے آ کر انہوں نے مغربی چین پر قبضہ کر لیا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ان کے ہم قوم جاہل ہیں اور تہذیبی طور سے چینی قوم سے نہایت کم تر ہیں۔ اس لئے انہوں نے پرانے نظام ِ سلطنت کو برقرار رکھا اور ملک کی عام زندگی میں مداخلت سے گریز کیا۔ وہ چین کے رسم و رواج اور کنفوشس کے نظریات کی پیروی کیا کرتے تھے۔
    کنفوشس ﴿551 ق م سے 479 ق م تک﴾کے تصورات چین میں دو ہزار سال تک رائج رہے۔ یہ نظریات بادشاہ‘ امرا‘ افسران اور بڑے زمین داروں کی مکمل حمایت کرتے تھے اور سماج میں بنیادی تبدیلی کے مخالف تھے۔ یہ غریب کسان کو صرف صبر و ضبط کی تلقین کرتے تھے۔ کنفوشس اعلیٰ انسان کو ادنیٰ پر فوقیت دیتا تھا۔ اسی طرح باپ کو بیٹے پر‘ شو ہر کو بیوی پر‘ شاہ اور زمین دار کو کسان پر فوقیت حاصل تھی۔ وہ افسر شاہی کا زبردست حامی تھا۔ اسی لئے قدیم چین میں ہر شاعر‘ ادیب اور پڑھا لکھا آدمی سرکاری افسر ہوا کرتا تھا۔ کنفوشس کے جامد نظریات نے سوچ پر پہرے بٹھا دیئے تھے۔
    چین میں کسان بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہزاروں سال کے زمین داری نظام میں سینکڑوں کسان بغاوتیں ہوئیں ۔ زمین کے زیادہ کرائے‘ بھاری ٹیکس‘ بے گار‘ زمین داروں کے استحصال اور افسروں کے ظلم و تشدد نے کسانوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ لیکن چین کے بہادر کسانوں نے اکثر بڑی جرائت سے اس کا مقابلہ کیا۔ چین میں کہا جاتا تھا کہ ’’ظالم حاکم کے خلاف بغاوت کرنا‘ راہِ حق پر چلنا ہے۔‘‘ بیشتر کسان بغاوتیں ناکام ہو جاتی تھیں۔ لیکن چین کے دو شاہی خاندان حان اور منگ کسان بغاوتوں کی وجہ سے برسرِ اقتدار آئے۔ ایک بہت بڑا ملک ہونے کی وجہ سے شاہی حکومت دور دراز کے صوبوں پر مکمل کنٹرول نہیں رکھ سکتی تھی۔ اس لئے باغی کسی دور دراز کے پہاڑی علاقے میں اپنی فوجیں منظم کرتے تھے۔ تاکہ بادشاہ ان کی سیاسی اور فوجی سرگرمیوں سے آگاہ نہ ہو سکے۔ بادشاہ باغیوں ‘ ان کے رشتے داروں اور ساتھیوں کو عبرت ناک سزائیں دیتا تھا۔ انیسویں صدی میں چین کی کسان بغاوتیں نقطۂ عروج پر پہنچ گئی تھیں۔
    چین میں انتہائی طاقتور زمین داری نظام رائج تھا۔ بادشاہت اور فوج اسی طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی۔ کسان انتہائی غربت اور تنگ دستی کی زندگی بسر کر تے تھے۔ جب قحط پڑتا تھا یا سیلاب آتا تھا تو ٹیکس کی ادائیگی کے لئے کسان مجبور ہو کر اپنے بچے تک بیچ دیا کرتے تھے۔ اسی غربت اور ظلم کی وجہ سے چین میں سینکڑوں کسان بغاوتیں ہوئیں۔ منگ بادشاہوں نے صدیوں سے قائم نظام ِ سلطنت کو مستحکم کیا اور اس میں کئی اہم تبدیلیاں کیں۔ چونکہ بادشاہ خود افسروں کا تقرر کرتا تھا۔ اس لئے سول سروس اس کی وفادار تھی۔ انتظامِ سلطنت کے لئے چھ محکمے قائم کئے گئے۔ فوج براہ راست بادشاہ کے کنٹرول میں ہوتی تھی۔ خفیہ پولیس کا ادارہ بھی بادشاہ کے کنٹرول میں تھا۔ یہ مرکزی اور صوبائی افسروں کی کڑی نگرانی کرتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں 1469 میں 100,000 سول افسر اور 80,000 فوجی افسر تھے۔ افسروں کا انتخاب ایک امتحانی نظام کے تحت ہوتا تھا۔ لیکن بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اس میں مناسب تبدیلی نہ ہوئی تو یہ نظام بھی اپنی افادیت کھو بیٹھا۔
    اہلِ چین کا علمی سفر بھی جاری رہا۔ انہوں نے 868 میں لکڑی کے بلاک بنا کر پہلی کتاب چھاپی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہویں صدی تک دنیا کی کل کتابوں سے بھی زیادہ کتابیں چین میں تھیں۔ اہل ِ چین کہانیوں‘ عوامی گیتوں‘ شاعری‘ ڈرامے ‘ ناول‘ ترجموں ‘ شاہی خاندانوں کی تاریخوں‘ ڈکشنریوں اور اینسائکلوپیڈیا وغیرہ اصناف سخن کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر فنون میں بھی چینی تخلیقی صلاحیت نئی راہیں تلاش کر رہی تھی۔ یہ بھی نیرنگی ٔ زمانہ ہے کہ جس چین نے آتش بازی سے لطف اندوز ہونے کے لئے بارود ایجاد کیا تھا۔ اسی چین پر یورپ اور امریکہ کے سفید فام سامراجی بارود کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے سہارے حملہ آور ہوئے۔
    بادشاہت اور فرسودہ زمین داری نظام کے باعث چین کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ بظاہر چین میں ایک مضبوط مرکزی حکومت تھی۔ سلطنت بھی وسیع تھی ۔ ملک کا نظام بھی چل رہا تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یورپ نہایت تیز رفتاری سے تجارتی اور صنعتی ترقی کے منازل طے کر رہا تھا اور اس کی فوجی قوت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ نیا صنعتی سرمایہ داری سامراجیت کا دیو بوتل سے باہر نکل کر بازو پھیلا رہا تھا‘ لیکن چین اب بھی خود ستائی کے گھمنڈ میں مبتلا اپنے آپ میں گم تھا۔

No comments:

Post a Comment