Nov 22, 2009

The Fidel Castro's Cuba

فیدل کاسترو کا کیوبا

    بیسویں صدی انسان کے تاریخی اور سیاسی شعور کی بیداری کی صدی ہے۔ اس صدی کی دہلیز پر پہلا قدم رکھنے کے کچھ ہی دن بعد دنیا کو پہلی جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ ایک ایسی آفت ہے کہ ہزاروں مسائل کو جنم دیتی ہے۔ لیکن یہ ایسی کچھ نئی چیزوں کو سامنے لاتی ہے کہ اس سے آدمی کی عقل و خرد کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔
’خدا شرِّ برانگیزَد کہ خیرِمن درآں باشد‘

    دیکھیے اس جنگ کے کچھ ہی عرصہ کے بعد مارکس ولینن کی جدوجہد سے 1917میں انقلابِ روس برپا ہوا اور یہ دنیا کے لیے ایک خوش گوار تجربہ تھا‘ جس سے پہلی بار مزدور اور کسان جن کا نام تاریخ میں ملتا ہی نہیں‘ ایک اہم کردار کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔ اس کے اثرات مغرب و مشرق ہر طرف نئی نئی تحریکوں کی شکل میں دکھائی دینے لگے۔ دنیا اس نئے تجربہ سے ابھی پوری طرح فیضیاب بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ اس بار تباہی و بربادی کے اثرات بہت گہرے تھے‘ لیکن تاریخ کے اصول کے مطابق اس کے فوراً بعد چین میں ایک عوامی انقلاب برپا ہوا ۔ جس کے اثر سے ایشیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی میدانِ عمل میں نکل آئے اور مغربی طاقتوں کی غلامی کا جُوا اتار پھینکا جیسے کوریا اور ویت نام۔
    ان چھوٹے ملکوں کی جدوجہد اور استقامت پر نظر ڈالیے تو انسان کا حوصلہ کس قدر بلند ہوتا ہے اور ہر جگہ ظالموں کی صف میں وہی بڑی طاقت نمایاں ہے جو آج بھی دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ لیکن اس طاقت کے خلاف جس ملک کی جدوجہد سب سے زیادہ حیران کُن ہے‘ وہ جنوبی امریکا میں فیدل کاسترو کا کیوبا ہے۔ اس ملک کی نمایاں خوبی جس سے ہم بہت متاثر ہوئے ہیں وہ جذبہ کی شدت کے ساتھ اس کی دانش مندی اور تدبر ہے۔ اس نے روس کی مدد ضرور حاصل کی لیکن دنیا کی گروہ بندی میں بہت سنبھل کر چلتا رہا۔ اُس کے اِس انداز کی وجہ سے رعب اور دبدبے سے زیادہ اس سے ایک اپنائیت اور اُنسیت کا رشتہ استوار ہوگیا تھا۔

’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ‘

    ہمیں کیوبا کے تعلیمی معیار اور صحت کے نظام سے بڑا سبق حاصل ہوتا ہے۔ اسے صرف اعلیٰ کارکردگی اور ذہانت کہہ کر بات ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس کی تہ میں وہی انسانی بھلائی کی لگن شدت سے کارفرما نظر آتی ہے۔
 

No comments:

Post a Comment