Nov 28, 2009

The first Opium War from 1840 to 1842

پہلی افیم کی جنگ1842-1840   
برطانیہ افیم کی منافع بخش تجارت جار ی رکھنا چاہتا تھا۔ سرمایہ داری سامراجیت نے ’آزاد تجارت‘ کے نام پر ’گن بوٹ ڈپلومیسی‘ پر عمل کیا۔ افیم کی تجارت کو جاری رکھنے کے لئے برطانیہ نے 1840 میں چین پر حملہ کر دیا۔ عوام نے غیر ملکی حملے کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ لیکن منچو بادشاہ اور امرائ کی لاپرواہی سے چین کو اس جنگ میں شکست ہوئی۔ بزدل حکمران نے ذلت آمیز سمجھوتہ کر لیا اور چین کی آزادی و خود مختاری بیچ دی گئی۔ 1842ئ کے ’معاہدہ‘ نانجنگ‘ کی رو سے چین نے بے شمار رعاتیں دیں۔ حانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے حاصل کر لیا۔ چین کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑا۔ برطانیہ کو بہت سی فوجی اور تجارتی رعایتیں دی گئیں اور اُسے سب سے زیادہ پسندیدہ قوم‘ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر امریکہ‘ نے بھی 1844 میں معاہدہ وانگ زیا کے ذریعے ’سب سے زیادہ پسندیدہ قوم‘ کا درجہ اور برطانیہ کو دی جانے والی تمام تجارتی رعاتیں بھی حاصل کر لیں۔ فرانس ‘ بیلجیم‘ سویڈن اور ناروے نے بھی ’سب سے یکساں سلوک‘ کے اصول کے تحت یہ رعاتیں حاصل کیں۔ افیم کی یہ جنگ مشرق کے زمین داری نظام اور مغرب کے سرمایہ داری نظام کے ٹکرائو کی جنگ تھی۔ فرسودہ زمین داری نظام میں سرمایہ دار سامراجیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
    برطانیہ نے افیم کی تجارت سے پورا فائدہ اٹھایا۔ 1853 تک دگنی مقدار میں افیم چین کو بیچی جانے لگی۔ اس سے چین کی معیشت کو نقصان پہنچا‘ خصوصاً غریب کسان تباہ ہو گئے۔ برطانیہ اورامریکہ کے سستے سامانِ تجارت کے چین میں آنے کی وجہ سے ملکی صنعتوں کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ لاکھوں ہنر مند مزدور بے روزگاری اور فاقہ کشی کا شکار ہونے لگے۔ لیکن بادشاہ‘ امرأ اور افسران عوام کے دکھ درد سے بے خبر اپنے عیش و عشرت میں مگن رہے اور عوام پر مزید ٹیکس لگاتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1841 سے 1849 کے درمیان چین کے مختلف حصوں میں سو سے زیادہ بغاوتیں ہوئیں۔

Nov 26, 2009

Europe's New Industrial Investment System

یورپ کا نیا صنعتی سرمایہ داری نظام
    نئے تجارتی اورصنعتی نظام نے صدیوں سے قائم زمین داری سماج کو شکست دے کر یورپ میں اپنے قدم جمالیے تھے۔ اب ایشیائی اورافریقہ پہنچنے والے تاجر اور ملاح صرف گرم مصالحے‘ ریشم اور کپڑے کے بیوپاری نہیں تھے۔ نئی مشینوں کی ایجاد نے تجارتی تقاضوں کے رنگ و روپ کو بدل دیا تھا۔ مشینوں سے اب زیادہ سے زیادہ چیزیں تیار کی جا سکتی تھیں۔ اب انہیں ایسی نو آبادیات کی ضرورت تھی۔ جہاں وہ اپنا تیار شدہ مال بغیر کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بیچ سکیں اور اپنی فیکڑیوں کے لئے سستے داموں خام مال اور معدنیات حاصل کر سکیں۔ اب تیزی سے دولت کمانے کی نئی تیکنیک ان کے ہاتھ میں تھی اور بقیہ دنیا اس بدلتی ہوئی صورت ِ حال کی سنگینی سے بے خبر تھی۔ بے خبری جہالت ہی کی ایک صورت ہے۔
    ایشیا کی کمزور ریاستیں اور بادشاہتیں‘ فرسودہ و جابر زمین داری نظام‘ مذہب و نسل کی بنیاد پر منقسم قومیں ان کا نہایت آسان شکار تھیں۔ اب مارکو پولو کے لکھے گئے جھوٹے یا سچے سفر نامے پر حیرت زدہ ہونے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔ سونے کی چڑیا ہند اب نئے حملہ آور برطانیہ کے پنجرے میں قید تھی۔ ہند پر قابض منگول شکست کھا چکے تھے۔ دنیا قدیم حملہ آوروں. فرعونوں‘ رومیوں‘ یونانیوں‘ ایرانیوں ‘ عربوں ‘ ترکوں اور منگولوں کے بعد‘ اب نئے یورپی حملہ آوروں کی زد میں تھی۔ ان کے ہاتھ میں ایک نئے فلسفے اور نئے مذہب. صنعتی سرمایہ داری سامراجیت کا پرچم تھا۔ ایشیا کے آسمانوں پر یورپ کے گدھ منڈلا رہے تھے۔ بحرِ ہند اور بحرِ الکاہل کے وسیع نیلے سمندورں پر نئے بحری قزاق ‘ نئے پروگرام اور نئی حکمتِ عملی کے ساتھ منڈیوں کے لئے ایک نئی جنگ لڑ رہے تھے جو ساری پرانی روایتی جنگوں سے مختلف تھی۔
    ایشیا‘ افریقہ‘ شمالی اور جنوبی امریکہ ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے برِ اعظموں میں آباد قومیں‘ یورپ کے اس حملے کے لئے تیارنہیں تھیں۔ ان کی بے خبری‘ کم آگاہی‘ کمزوری اور شکست نے طویل غلامی کی سیاہ رات کو کئی ملکوں‘ قوموں اور نسلوں کا مقدر بنا دیا۔ چین جیسا بڑا ملک بھی اپنی کمزوریوں کے باعث ذلت اور غلامی سے دوچار تھا۔ کل تک کوریا‘ ویت نام اور تھائی لینڈ وغیرہ سے خراج وصول کرنے والے ملک کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ بے بسی و مجبوری و غلامی کسے کہتے ہیں۔ یورپی تاجروں اور فوجوں کی ہوس زر اور زمین نے حالیہ چند صدیوں کے دوران مادرِ گیتی پر ایک نیا المیہ تصنیف کیا ۔ یورپی اقوام اب یورپ میں ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے امریکہ ایشیا اور افریقہ کی طرف اپنے جنگی جہازوں میں رواں دواں تھیں۔ ہر ایک کو زمین چاہیے تھی۔ ہر ایک کو بندرگاہوں اور کھلی منڈیوں کی ضرورت تھی۔ ہر ایک خاص رعایتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ہر یورپی ملک ’سب سے زیادہ پسندیدہ ملک‘ کا درجہ حاصل کرنے کے لئے بے چین تھا۔ ان کی جدید پروپیگنڈہ مشینری نے اسے ’آزاد تجارت‘ کا نام دیا تھا۔
    سولہویں صدی سے یورپی اقوام کی آمد کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ 1516 میں پرتگیزی چین آئے۔ اس کے بعد 1552 میں روسی‘ 1575 میں ہسپانوی‘ 1604 میں ولندیزی‘ 1637 میں برطانوی اور 1784 میں امریکی آئے۔ سب کا مقصد ایک تھا۔ تجارت کرنااورسفارتی تعلقات قائم کرنے کے بہانے ملک کے وسائل کا استحصال کرنا۔ پرتگیزی 1553 میں میکائو پر قابض ہو گئے۔ ولندیزی جب چین پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو ئے تو انہوں نے فارموسا پر سترہویں صدی میں قبضہ کر لیا۔ زارِ روس یورپ میں اپنی مملکت وسیع نہ کر سکا تو اس نے ایشیا کی طرف اپنی سرحد پھیلانی شروع کی ۔ روس نے 1552 میں کازان پر قبضہ کر لیا۔ مسکو وی بحرِ الکاہل تک جا پہنچا۔ انہیں بھی گرم مصالحے اور فر کی تلاش تھی۔ زارکی کاسک فوجوں نے نہایت درندگی سے مقامی لوگوں کو قتل کیا۔ سترہویں صدی میں منچو حکمرانوں نے ان کے خلاف فوج بھیجی۔ ابتدائی ناکامی کے بعد انہوں نے جلد ہی روس کو شکست دے دی۔ زارنے 1685 میں ایک نمائندہ مشن بیجنگ بھیجا۔ روس اور چین کے درمیان’معاہدہ نرچنسک ‘ طے ہوا۔ پھر ایک دوسر ا معاہدہ ’کیا ختا‘ 1728 میں ہوا۔ یہ وہ ابتدائی معاہدے تھے جو چین اور کسی یورپی ملک کے درمیان ہوئے۔ ان معاہدوں کے ذریعے روس نے کئی رعایتیں حاصل کر لیں۔
افیم کے برطانوی تاجر:  بیرونی مداخلت سے پہلے چین کی اکانومی غیر ملکی سامان کی ضرورت سے آزاد تھی۔ صرف بادشاہ‘ افسر اور بڑے زمین دار پُر آسائش زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کروڑوں غریب کسان اور ہنر مند مزدور کافی تھے۔ چین کے ریشمی کپڑے کی دنیا بھر میں مانگ تھی اور تجارت کا توازن چین کے حق میں تھا۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو چین کے ساتھ تجارت میں بڑا خسارہ ہو تا تھا۔ اُسے اپنے خزانے سے چین کو کیش رقم ادا کرنی پڑتی تھی۔ برطانیہ کسی ایسے سامان ِ تجارت کی تلاش میں تھا۔ جس سے یہ تجارتی توازن اس کے حق میں ہو جائے۔ برطانیہ ہند میں بنگال اور بہار پر قابض ہو چکا تھا۔ اس نے بنگال اور بہار کے کاشت کاروں کو مجبور کیا کہ وہ چاول کی بجائے افیم کی کاشت کریں۔ ﴿چاول کی پیداوار انتہائی کم ہو جانے کی وجہ سے اس علاقے میں مسلسل قحط پڑنے لگے﴾ برطانیہ 1781 سے چین کو بڑی مقدار میں افیم فروخت کرنے لگا اور چین سے برطانوی تجارت نہایت منافع بخش ہو گئی۔ افیم کے مضر اثرات سے پریشان ہو کر چین نے 1800 میں افیم کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ لیکن برطانوی کمپنی نے ملک دشمن چینی افسروں اور تاجروں کے ساتھ مل کر بڑی مقدار میں افیم کی اسمگلنگ شروع کر دی۔ یورپی ملک برطانیہ انیسویں صدی میں افیم کا سب سے بڑا اسمگلر بن گیا۔ 1800 میں برطانوی کمپنی 2,88,000 کلو افیم اسمگل کرتی تھی۔ یہ ترقی کر کے 1838 میں288,0000 کلو ہو گئی۔ منچو بادشاہ نے ’لین زی شو ئے‘ کو اس کی روک تھام کرنے کے لئے کمشنر مقرر کیا۔ اس نے برطانوی کمپنی کی 14,40,000 کلو افیم ضبط کر کے ساحل پر کھلے عام جلوادی۔ یاد رہے کہ اس میں سے 72,000 کلو افیم امریکہ کی تھی ۔

The Public Democratic Revolution of China

چین کا عوامی جمہوری انقلاب

    دنیا بھر کے عوام کو انقلاب‘ آزادی‘ سماجی انصاف اور امن کا پیغام دینے والے چین کے بہادر کسانوں اور مزدوروں نے ایک طویل انقلابی جدوجہد کے بعد غیر ملکی  سامراجیوں اور ظالم زمین دار طبقے کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل کی ۔ چین کے عوامی انقلاب نے کسانوں‘ مزدوروں اور کچلے ہوئے عوام کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ آج ایشیا‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ میں غیر ملکی سامراجیوں کے ظلم و استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے والی تمام عوامی تحریکیں ان نئے انقلابی خیالات سے متاثر ہیں۔ چین جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہ زمین کی وسعت اور اپنی تہذیبی ترقی کی وجہ سے بھی ایشیا کا عظیم ملک ہے ۔ چین کی تہذیب اور فلسفیانہ تصورات نے ہزاروں سال تک مشرقی ایشیا پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ اسی لئے چین کو مشرقی ایشیا کا دل کہا جاتا تھا۔
جغرافیہ اور قدیم تاریخ:
    کسی بھی ملک کی تاریخ پر اس کے جغرافیائی حالات گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ چین کے جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے عرصے تک بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھا۔اس کے مشرق میںدنیا کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر بحرالکاہل ہے۔ اس کے شمال مغرب اور جنوب میں فلک بوس دشوار گزار پہاڑوں کا سلسلہ ہے ۔ صحرائے گوبی چینی منگولیا کو آزاد منگولیا سے جدا کرتا ہے۔ چین میں سینکڑوں دریا بہتے ہیں۔ بہت سے دریا برف پگھلنے سے وجود میں آتے ہیں اور خشکی پر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ شمالی چین میں ملک کا دوسرا بڑا دریا ’حوانگ حو‘ یا دریائے زرد بہتا ہے۔ اس کی لمبائی 2700 میل ہے۔ دریائے زرد کی وادی چین کی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ اس دریا کو ’دکھوں کا دریا‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے زرد نے 26 مرتبہ راستہ بدلا ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے میں زبردست تباہی پھیلی۔ اگر شدید بارش ہوتی ہے تواس علاقے میں سیلاب آتے ہیں اور اگر بارش کم ہوتی ہے تو دریا میں پانی بہت کم ہو جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں قحط اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وسطی چین میں ملک کا سب سے بڑا اور دنیا کا تیسرا بڑا دریا ’یانگ سی‘ بہتا ہے۔ اس کی لمبائی 3400 میل ہے۔ یہ شنگھائی کے قریب سمندر میں گرتا ہے۔ اس دریا میں1500 میل تک جہاز رانی ہو سکتی ہے۔ چین کے بڑے دریائوں کے کنارے بہت سے مشہور شہر آباد ہیں۔ اس علاقے میں گھنی آبادی ہے۔ دریائے یانگ سی کی وادی میں دریائوں‘ نہروں اور جھیلوں کا جال بچھاہوا ہے۔ جنوبی چین کا علاقہ نہایت سر سبز اور شاداب ہے۔ چاول‘ چائے‘ شہتوت اور بانس خوب پیدا ہوتے ہیں۔ موسلا دھار بارش ہوتی ہے۔ مٹی زرخیز ہے۔ سال میں تین فصلیں ہوتی ہیں۔ دریائے ’چوچیانگ‘ جنوبی چین میں بہتا ہوا کینٹن کاڈیلٹا بناتا ہے۔ اس کی لمبائی 1250 میل ہے۔ اس کے بیشتر حصے میں جہاز رانی ہو سکتی ہے۔ مغربی چین کا علاقہ پہاڑی اور بنجر ہے۔ چین میں شدید سردی اور شدید گرمی کے موسم پائے جاتے ہیں۔ اس کی آب و ہوا پر مون سون ہوائیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ چین کا رقبہ 96 لاکھ کلو میٹر ہے۔ اس کی سرحدیں 20,000 کلو میٹر لمبی ہیں اور 12 ملکوں سے ملتی ہیں۔ اس کا ساحل سمندر 18,000 کلو میٹر سے زیادہ لمبا ہے۔ چین کا 2/3 حصہ پہاڑی یا پتھریلا ہے۔ چین میں بیجنگ ‘ شنگھائی‘ حانگ کانگ اور نانچنگ کے علاوہ بے شمار بڑے شہر ہیں۔
چینی سماج:  چین کے عوام اپنے علاقے اور صوبے سے گہری وابستگی رکھتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ ہزاروں سال کے عمل میں وہ سب قومی دھارے کا حصہ بن گئے ہیں۔ چینی کہتے ہیں کہ ’’چین ایک ایسا سمندر ہے‘ جس میں گرنے والے سارے دریا نمکین ہو جاتے ہیں‘‘۔ کڑوڑوں انسانوں کو صدیوں تک بہ حیثیت ایک چینی قوم متحد رکھنے کے لئے چین کے فلسفیوں‘ مدبروں اور اہل قلم نے ذہانت اور رواداری کا ثبوت دیا۔ اسی لئے آج یہ قوم ایک زبان بولتی ہے‘ چینی شہری ہونے پر فخر کرتی ہے اور اپنے کو چینی کلچر کا اٹوٹ انگ سمجھتی ہے۔ چین میں رائج مذہبی تصورات اور فلسفیانہ نظریات نے بھی اس یگانگت کو جلا بخشی ہے۔
    ابتدائی چینی سماج کے بارے میں ’مائو زے تنگ‘ لکھتے ہیں کہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ترقی پذیر چینی سماج میں بھی ہزاروں سال تک ایک غیر طبقاتی کمیون کا نظام رائج تھا۔ 4000 سال پہلے یہ نظام ختم ہوا اور ایک طبقاتی سماج نے جنم لیا۔ شروع میں غلامانہ نظام قائم ہوا۔ پھر اس کی جگہ زمین داری نظام نے لی. چینی قوم ساری دنیا میں نہ صرف اپنی قوت برداشت اور محنت کے لئے مشہور ہے بلکہ وہ ایک آزادی سے محبت کرنے والی انقلابی روایات کی حامل قوم کی شہرت بھی رکھتی ہے۔ حان قوم کی ہزاروں سال کی تاریخ میں زمین داروں کے ظلم و ستم کے خلاف سینکڑوں چھوٹی اور بڑی بغاوتیں ہوئیں۔ جن میں بے شمار قومی ہیرو اور انقلابی لیڈر ابھرے۔ یہ چین کی شاندار انقلابی روایت اور عظیم تاریخی ورثہ ہے۔‘(1)
    چین کا قدیم زمین داری نظام ’چو‘ اور ’چن‘ خاندانوں کے دور میں شروع ہوا اور 3000 سال تک قائم رہا۔ اس کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
1۔    اس دور میں خود انحصاری کا قدرتی معاشی نظام رائج تھا۔ کسان کھیتی باڑی کے علاوہ دست کاری کا کام بھی کرتا تھا۔ زمین دار پیداوار کا بیشتر حصہ خود استعمال کرتا تھا۔ اس فصل کا تبادلہ کسی اور چیز سے نہیں کیا جاتا تھا۔
2۔    حکمران طبقہ زمین داروں‘ امرائ اور بادشاہ پر مشتمل تھا۔ بیشتر زمین ان کے قبضے میں تھی۔ کسانوں کے پاس بہت کم زمین تھی یا سرے سے تھی ہی نہیں۔ پیداوار کے لئے کسان اپنے اوزار استعمال کرتے تھے۔ پچاس سے اسی فی صدی یا اس سے بھی زیادہ پیداوار مالک کے حوالے کر دی جاتی تھی۔ حقیقت میں یہ کسان نہیں بلکہ نیم غلام تھے۔
3۔    زمین دار طبقہ کسانوں سے نہ صرف کرایہ وصول کرتا تھا بلکہ کسان خراج‘ بھاری ٹیکس اور بے گار بھی ادا کیا کرتے تھے۔
4۔    زمین دار طبقے کی قائم کردہ جاگیردارانہ ریاست‘ اس استحصالی نظام کی حفاظت کرتی تھی۔ اس نظام میں طاقت بادشاہ کے ہاتھ میں تھی۔ وہ سب فوجی اور غیر فوجی افسروں کا تقرر کرتا تھا۔ اس کی حکومت کا انحصار زمین دار طبقے کی حمایت پر تھا ۔ کسان انتہائی غربت میں نیم غلامانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ زمین دار اس کی پٹائی کر سکتا تھا۔ اس کی بے عزتی کر سکتا تھا اور اگر چاہے تو قتل بھی کر سکتا تھا۔ کسانوں کی انتہائی غربت اور تنزل‘ زمین دار طبقے کے بے رحمانہ استحصال اور ظلم کا نتیجہ تھا۔ اسی وجہ سے چین کی معیشت اور سماجی زندگی میں تغیر نہ ہو سکا۔ بغا وت اسی ظلم و جبر کا نتیجہ ہے۔ چین میں ہونے والی بغاوتوں کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ یہی بغاوتیں زمین داری نظام کو کمزور کرتی ہیں۔ چونکہ اس دور میں نئی پیداواری طاقتیں‘ نئے پیداواری رشتے‘ نئی طبقاتی طاقت اور ایک نئی ترقی پسند سیاسی پارٹی موجود نہیں تھی۔ اس لئے ان بغاوتوں میں ایک صحیح قیادت کی کمی تھی۔
    چین کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہزاروں سال پہلے چینی ریاست دریائے زرد کے گرد پھیلنی شروع ہوئی۔ دو ہزار سال قبلِ مسیح ’شیا اور شانگ‘ عہد کا آغاز ہوا۔ اس دور میں چین قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ سب سے طاقتور قبیلہ کمزور قبائل کو زیر کر لیتا تھا۔ اس عہد میں پہلی بار غلامانہ نظام قائم ہوا۔ شانگ خاندان نے ایک مرکزی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ زراعت پھیلی اور ریشمی کپڑا بننے کے فن نے ترقی کی۔ کانسی کا استعمال شروع ہو گیا۔
    ’چو‘ خاندان 1122 ق م سے 221 ق م تک حکم ران رہا۔ اس دور میں زمین داری نظام کو استحکام حاصل ہوا۔ لوہے کی کلہاڑی‘ کدال اور ہل استعمال کئے جانے لگے۔ کنفوشس ‘ موھسٹ اور تائو کے نظریات وجود میں آئے۔ رزمیہ شاعری نے ترقی کی۔ محنت کش غلامی کی زنجیر توڑ کر کسان بن گئے اور زمین داروں کے ظلم کا شکار ہونے لگے۔ اس عہد میں بادشاہوں کا ملک پر فوجی کنٹرول بہت سخت تھا اور انہیں غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔
    ’چھین ۔ شی۔ حوانگ‘ نے 220 ق م سے 209 ق م تک حکومت کی۔ اس نے چین کو متحد کیا۔اسی کے نام پر ملک کا نام چین پڑا۔ اس نے بڑے زمین داروں اور سرداروں کو انتہائی سختی سے دبایا اور ایک طاقتور مرکزی حکومت قائم کی۔ وہ کنفوشس کی ماضی پر ستی کے سخت خلاف تھا۔ کیونکہ اس طرح لوگ حال اور مستقبل کے مسائل سے فرار اختیار کرتے تھے۔ اس نے کنفوشس کی کتابوں کو جلوا دیا اور اس کے نظریات کی حمایت کرنے والے دانشوروں کو زندہ دفن کروا دیا۔ 214 ق م میں عظیم دیوارِ چین کی تعمیر شروع ہوئی۔ جس کا مقصد غریب اور بھوکے قبائل کو چین میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔
    ایک عوامی بغاوت کے بعد ’حان‘ خاندان کی حکومت 206 ق م سے 220 عیسوی تک قائم رہی۔ اس دور میں کنفوشس کے نظریات دوبارہ ملک میں پھیل گئے۔ تیسری صدی میں بدھ مذہب چین میں پھیلا۔ اس دور میں تجارت نے ترقی کی اور کئی نئے شہر آباد ہوئے۔ سائنس اور ثقافت نے ترقی کی۔ چین کی پہلی عام تاریخ لکھی گئی۔ زلزلہ پیما اور فلکیات کے آلے ایجاد ہوئے۔ حان دور میں چین کے ریشمی کپڑے دنیا بھر میں مشہور ہو چکے تھے۔ درختوں کی چھال‘ سن کے ٹوٹے ہوئے رسوں اور کپڑے کے ٹکڑوں سے عمدہ کاغذ بنایا جانے لگا۔
    ’تانگ‘ خاندان نے 618 سے 906 تک حکومت کی۔ اس دور میں معاشی ترقی ہوئی۔ بارود جو پہلے ہی ایجاد ہو چکا تھا‘ لڑائی میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس خاندان کے بانی تانگ نے چین میں سول سروس کے امتحان کا نظام نافذ کیا۔ کئی ا نتظامی محکمے قائم کیے۔ فوج مرکزی حکومت کے کنڑول میں تھی۔ تانگ دور میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ کیونکہ یہ دوسری قوموں کی دولت چھیننے کا سب سے عام اور آسان طریقہ ہے۔ بادشاہوں کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ کوئی دوسرا ملک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اتنی بڑی سلطنت میں فوجی‘ معاشی اور سیاسی کمزوریاں بڑھ رہی تھیں ۔ اسی دور میں نستوری عیسائی‘ زرتشتی‘ مانی چین اور مسلمان چین آئے۔ چین کی تجارت دور دور کے ملکوں تک پھیل گئی تھی۔ چین کا تیار کر دہ سامان بغداد‘ قاہرہ اور قسطنطنیہ تک پہنچنے لگا تھا۔
    منگول ’یوآن‘ خاندان نے 1279 سے 1368 تک چین پر حکومت کی۔ وحشی منگول قبائل نے تیزی سے حملہ کر کے ’سنگ‘ شاہی خاندان کو شکست دے کر سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ ایک مشہور چینی قول ہے کہ’آپ گھوڑے پر سوار ہو کر ایک ملک فتح کر سکتے ہیں‘ لیکن گھوڑے پر سوار ہو کر ایک ملک پر حکومت نہیں کر سکتے‘ انتہائی غیر ترقی یافتہ منگولوں نے جلد ہی تمام چینی اقدار کو قبول کر لیا۔ انہوں نے ایک سخت مطلق العنان حکومت قائم کی۔ اس دور میں بھی تجارت ترقی کرتی رہی۔ چین میں بے شمار کسان بغاوتیں ہوئیں۔ آخر سو سال کے اندر ہی چینی امرائ‘ زمین داروں اور افسروں نے منگولوں سے حکومت چھین لی۔
    ’مِنگ‘ خاندان نے 1368 سے 1644 تک چین پر حکومت کی۔ اس دور میں زمین داری نظام زوال پذیر تھا۔ فیکڑیوں میں سامان تیار کیا جانے لگا ۔ ’لی شی چن‘ نے طب کی کتاب مرتب کی۔ جس میںایک ہزار آٹھ سو ادویات اور تقریباً دس ہزار نسخے درج تھے۔ اس کا کئی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس دور میں ادب نے بڑی ترقی کی۔ اعلیٰ معیار کے طویل ناول لکھے جانے لگے۔ ’چھائو شیو ئے چھین‘ کا ناول ’لال حویلی کا سپنا‘ بہت مشہور ہوا۔ منگ بادشاہت بھی مطلق العنان تھی۔ اس نے امرائ اور افسروں پر سخت کنٹرول قائم رکھا۔ اس دور میں ہجڑے بہت طاقتور ہو گئے تھے۔ شاہ ’’حونگ وا‘‘ نے ان کو کچلنے کی سخت کوشش کی۔ لیکن جب اس نے اپنے ہاتھ میں مزید طاقت سمیٹنے کے لئے 1380 میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا‘ تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہجڑوں کو ہوا۔ 1420 میں ان کی تربیت کے لئے ایک اسکول بھی قائم کیا گیا۔ وہ اتنے طاقتور تھے کہ منگ بادشاہ سے اپنی مرضی کے فیصلوں پر دستخط کروا سکتے تھے لیکن اس دور کے بعد انہیں اتنی طاقت پھر کبھی حاصل نہ ہو سکی۔ اس دور میں شمال میں منگول قبائل اور چین کے مشرقی ساحل پر جاپان اور یورپ کے بحری قزاق حملے کر رہے تھے۔
    ’منچو‘ خاندان نے 1644 سے 1912 تک چین پر حکومت کی ۔ شمال مشرق سے آ کر انہوں نے مغربی چین پر قبضہ کر لیا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ان کے ہم قوم جاہل ہیں اور تہذیبی طور سے چینی قوم سے نہایت کم تر ہیں۔ اس لئے انہوں نے پرانے نظام ِ سلطنت کو برقرار رکھا اور ملک کی عام زندگی میں مداخلت سے گریز کیا۔ وہ چین کے رسم و رواج اور کنفوشس کے نظریات کی پیروی کیا کرتے تھے۔
    کنفوشس ﴿551 ق م سے 479 ق م تک﴾کے تصورات چین میں دو ہزار سال تک رائج رہے۔ یہ نظریات بادشاہ‘ امرا‘ افسران اور بڑے زمین داروں کی مکمل حمایت کرتے تھے اور سماج میں بنیادی تبدیلی کے مخالف تھے۔ یہ غریب کسان کو صرف صبر و ضبط کی تلقین کرتے تھے۔ کنفوشس اعلیٰ انسان کو ادنیٰ پر فوقیت دیتا تھا۔ اسی طرح باپ کو بیٹے پر‘ شو ہر کو بیوی پر‘ شاہ اور زمین دار کو کسان پر فوقیت حاصل تھی۔ وہ افسر شاہی کا زبردست حامی تھا۔ اسی لئے قدیم چین میں ہر شاعر‘ ادیب اور پڑھا لکھا آدمی سرکاری افسر ہوا کرتا تھا۔ کنفوشس کے جامد نظریات نے سوچ پر پہرے بٹھا دیئے تھے۔
    چین میں کسان بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہزاروں سال کے زمین داری نظام میں سینکڑوں کسان بغاوتیں ہوئیں ۔ زمین کے زیادہ کرائے‘ بھاری ٹیکس‘ بے گار‘ زمین داروں کے استحصال اور افسروں کے ظلم و تشدد نے کسانوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ لیکن چین کے بہادر کسانوں نے اکثر بڑی جرائت سے اس کا مقابلہ کیا۔ چین میں کہا جاتا تھا کہ ’’ظالم حاکم کے خلاف بغاوت کرنا‘ راہِ حق پر چلنا ہے۔‘‘ بیشتر کسان بغاوتیں ناکام ہو جاتی تھیں۔ لیکن چین کے دو شاہی خاندان حان اور منگ کسان بغاوتوں کی وجہ سے برسرِ اقتدار آئے۔ ایک بہت بڑا ملک ہونے کی وجہ سے شاہی حکومت دور دراز کے صوبوں پر مکمل کنٹرول نہیں رکھ سکتی تھی۔ اس لئے باغی کسی دور دراز کے پہاڑی علاقے میں اپنی فوجیں منظم کرتے تھے۔ تاکہ بادشاہ ان کی سیاسی اور فوجی سرگرمیوں سے آگاہ نہ ہو سکے۔ بادشاہ باغیوں ‘ ان کے رشتے داروں اور ساتھیوں کو عبرت ناک سزائیں دیتا تھا۔ انیسویں صدی میں چین کی کسان بغاوتیں نقطۂ عروج پر پہنچ گئی تھیں۔
    چین میں انتہائی طاقتور زمین داری نظام رائج تھا۔ بادشاہت اور فوج اسی طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی۔ کسان انتہائی غربت اور تنگ دستی کی زندگی بسر کر تے تھے۔ جب قحط پڑتا تھا یا سیلاب آتا تھا تو ٹیکس کی ادائیگی کے لئے کسان مجبور ہو کر اپنے بچے تک بیچ دیا کرتے تھے۔ اسی غربت اور ظلم کی وجہ سے چین میں سینکڑوں کسان بغاوتیں ہوئیں۔ منگ بادشاہوں نے صدیوں سے قائم نظام ِ سلطنت کو مستحکم کیا اور اس میں کئی اہم تبدیلیاں کیں۔ چونکہ بادشاہ خود افسروں کا تقرر کرتا تھا۔ اس لئے سول سروس اس کی وفادار تھی۔ انتظامِ سلطنت کے لئے چھ محکمے قائم کئے گئے۔ فوج براہ راست بادشاہ کے کنٹرول میں ہوتی تھی۔ خفیہ پولیس کا ادارہ بھی بادشاہ کے کنٹرول میں تھا۔ یہ مرکزی اور صوبائی افسروں کی کڑی نگرانی کرتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں 1469 میں 100,000 سول افسر اور 80,000 فوجی افسر تھے۔ افسروں کا انتخاب ایک امتحانی نظام کے تحت ہوتا تھا۔ لیکن بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اس میں مناسب تبدیلی نہ ہوئی تو یہ نظام بھی اپنی افادیت کھو بیٹھا۔
    اہلِ چین کا علمی سفر بھی جاری رہا۔ انہوں نے 868 میں لکڑی کے بلاک بنا کر پہلی کتاب چھاپی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہویں صدی تک دنیا کی کل کتابوں سے بھی زیادہ کتابیں چین میں تھیں۔ اہل ِ چین کہانیوں‘ عوامی گیتوں‘ شاعری‘ ڈرامے ‘ ناول‘ ترجموں ‘ شاہی خاندانوں کی تاریخوں‘ ڈکشنریوں اور اینسائکلوپیڈیا وغیرہ اصناف سخن کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر فنون میں بھی چینی تخلیقی صلاحیت نئی راہیں تلاش کر رہی تھی۔ یہ بھی نیرنگی ٔ زمانہ ہے کہ جس چین نے آتش بازی سے لطف اندوز ہونے کے لئے بارود ایجاد کیا تھا۔ اسی چین پر یورپ اور امریکہ کے سفید فام سامراجی بارود کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے سہارے حملہ آور ہوئے۔
    بادشاہت اور فرسودہ زمین داری نظام کے باعث چین کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ بظاہر چین میں ایک مضبوط مرکزی حکومت تھی۔ سلطنت بھی وسیع تھی ۔ ملک کا نظام بھی چل رہا تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یورپ نہایت تیز رفتاری سے تجارتی اور صنعتی ترقی کے منازل طے کر رہا تھا اور اس کی فوجی قوت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ نیا صنعتی سرمایہ داری سامراجیت کا دیو بوتل سے باہر نکل کر بازو پھیلا رہا تھا‘ لیکن چین اب بھی خود ستائی کے گھمنڈ میں مبتلا اپنے آپ میں گم تھا۔

Nov 22, 2009

African Ghulam

افریقی غلام
    اراواک قبائل غلامی‘ بھوک‘ بدترین مظالم اور یورپ سے لائی گئی بیماریوں چیچک‘ پلیگ اور ٹی بی کی وجہ سے تیزی سے ہلاک ہونے لگے‘ کیونکہ ان یورپی بیماریوں کے خلاف ان میں فطری قوت مدافعت بالکل نہیں تھی۔ لیبر کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے 1512 سے کیوبا میں افریقی غلام لائے گئے۔ افریقہ سے اچھے صحت مند نوجوان خریدے جاتے تھے‘ جن میں اکثریت مردوں کی ہوتی تھی ۔ ان افریقی غلاموں کو جن جہازوں میں لایا جاتا تھا‘ وہ اس قدر گندے ہوتے تھے کہ 20 سے 30 فیصد نوجوان بحرِ اوقیانوس پار کرنے کے دوران ہی بیمار ہوکر مرجاتے تھے اور بقیہ غلام بندرگاہوں کی مارکیٹوں میں فروخت کر دیے جاتے تھے۔
    افریقی غلاموں کی منفعت بخش تجارت اسپین‘ پرتگال‘ برطانیہ‘ فرانس اور ہالینڈ کے تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔ عموماً ان افریقی غلاموں کو شکر‘ کافی اور تمباکو کے پلانٹیشنز اور فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے خریدا جاتا تھا۔ ہسپانوی مالکان کے ظلم و تشدد‘ کام کے طویل اوقات‘ بھوک‘ بیماری اور مایوسی کی وجہ سے وہ بھی جلد ہی موت کا شکار ہو جاتے تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مستقل نئے غلام منڈی سے خریدے جاتے تھے۔ غلاموں کا یہ کاروبار کئی سو سال تک جاری رہا۔ اس سے کیوبا میں افریقیوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
    کیوبا میں محنت و مشقت کے سب کام افریقی غلاموں سے کروائے جاتے تھے لیکن پلانٹیشنز اور فیکٹریوں کے مالک ‘ سپروائزر‘ سرکاری ملازم اور تجارتی اداروں کے افسر یورپ کے گورے ہوا کرتے تھے۔ اس صورتِ حال کے باوجود ابتدا سے ہی ہسپانوی‘ افریقی اور اراواک قبائلی ایک دوسرے سے شادیاں کیا کرتے تھے۔ اسپین سے آنے والوں میں عورتوں کی تعداد بہت کم تھی۔ رومن کیتھولک پادری اراواک قبائلیوں اور افریقی غلاموں کو زبردستی عیسائی بنالیتے تھے۔ اس لیے ہسپانوی مرد اپنی ہم مذہب افریقی اور اراواک عورتوں سے شادیاں کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مستیزو﴿ملی جلی نسل﴾ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ کیوبا میں قانوناً غلام مقررہ رقم ادا کر کے آزاد بھی ہوسکتا تھا۔ انیسویں صدی تک کئی ہزار غلاموں نے اس طرح آزادی حاصل کرلی تھی۔
    جب حیٹی اور سانتو دومینگو کے فرانسیسی جزیرے بغاوت کر کے آزاد ہوئے تو یورپی تاجروں نے اپنا سرمایہ کیوبا منتقل کردیا۔ 1792 سے 1821 کے دوران صرف حوانا کی بندرگاہ پر2,50,000 غلام فروخت کے لیے لائے گئے۔ کیوبا میں غلاموں کی تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ یہ افریقی غلام بدترین مظالم کا شکار تھے۔ اسپین کے تسلط کی ابتدا سے ہی یہاں رومن کیتھولک چرچ موجود تھا لیکن اندھے مذہبی پیشوائوں کو امیروں اور جابروں کا ظلم نظر ہی نہیں آتا۔ کیوبا میں افریقی غلام ایک بڑی قوت بن گئے تھے۔ انہوں نے غلامی کے خلاف مسلسل آواز بلند کی۔ ان کے علاوہ آزاد افریقی غلام‘ مستیزو اور پڑھا لکھا قوم پرست ہسپانوی طبقہ بھی غلامی کی پُرزور مخالفت کرنے لگا۔ 1810‘ 1812 اور 1844 میں غلاموں کی بغاوتیں ہوئیں‘ گو کہ ان بغاوتوں کو کچل دیا گیا لیکن باغیوں کو کیوبا میں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی ۔

The initial history of Cuba

کیوبا کی ابتدائی تاریخ

     اسپین کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے والے کیوبا کے اراواک قبیلے کے سردار حاتوئے نے قبائلیوں کی تباہی کی بنیادی وجہ بیان کرنے سے پہلے ایک ٹوکری پر سے ڈھکن اٹھایا۔ وہ سونے سے بھری ہوئی تھی۔ پھر اس نے کہا کہ ’یہ ہے ان کالارڈ جس کی وہ خدمت اورپرستش کرتے ہیں. اسی کے لیے یہ ہم پر تشدد کررہے ہیں‘ اسی کے لیے انہوں نے ہمارے ماں باپ‘ ہمارے سب لوگوں اور ہمارے پڑوسیوں کو قتل کیا ہے۔‘
             ﴿ویسٹ اِنڈیز‘ فیلیپ شرلوک‘ ص۔16﴾


    صدیوں سے طاقت و دولت کی ہوس نے اس دنیا کی تاریخ لکھی ہے۔ اسی زر و زمین کی تلاش میں کولمبس اور اس کے ساتھی بحری قزاق 28 اکتوبر 1492 کو کیوبا پہنچے تھے‘ جس کے سر سبزو حسین ساحل نے انہیںحیرت زدہ کردیا تھا۔ اس وقت شہر اور بندرگاہیں تعمیر نہیں ہوئی تھیں۔ اس کا بیشتر علاقہ ہرے بھرے جنگلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اجنبی زمین اور اجنبی انسانوں کے حقوق سے بے پرواہ ہسپانوی سپاہیوں نے کیوبا کو شاہِ اسپین کی نوآبادی قرار دے دیا۔ اس وقت یہاں قدیم اراواک قبیلے آباد تھے۔
     ابتدا میں اس جزیرے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ لیکن جب کولمبس کے بیٹے دیاگوکو اس علاقے کی ہسپانوی نوآبادیات کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس کے حکم سے 1511 میں کیوبا پر باقاعدہ قبضہ کرکے سرکاری دفاتر قائم کیے گئے اور ہسپانوی یہاں آباد ہونے لگے۔ میکسیکو پر اسپین کے تسلط کے بعد چاندی سے لدے ہوئے ہسپانوی جہاز اسپین کی بندرگاہ کا دیز جاتے ہوئے راستے میں کیوبا پر رکا کرتے تھے۔ اسی تجارتی ضرورت کے پیشِ نظر حوانا کی بندرگاہ کو ترقی دی گئی۔
    ابتدا میں ہسپانوی تاجروں نے کیوبا میں جانوروں کے رانچ قائم کیے اور نمک لگا گوشت اسپین بھیجنے لگے۔ جب یورپ میں شکر کی مانگ میں اضافہ ہوا تو یہاں گنے کے پلانٹیشنز قائم کیے گئے جس کے لیے بڑی لاپرواہی سے گھنے جنگلوں کو کاٹ دیا گیا۔ ہسپانوی جنگجو حملہ آور کیوبا کی سرزمین پر محنت و مشقت کرنے نہیں آئے تھے۔ وہ تو اپنے ہم وطن امرائ اور جاگیرداروں کی طرح راج کرنے کے خواہش مند تھے۔ اب اس چھوٹے سے جزیرے میں آباد انسانوں کو ان کی عیش و عشرت کی تمنائوں کی تکمیل کے لیے اپنا لہودینا تھا۔
    انہوں نے مقامی اراواک قبائلیوں کو زبردستی رانچ اور گنے کے پلانٹیشنز میں کام کرنے کے لیے مجبور کیا۔ یہ مچھیرے اور شکاری قبائل نہ تو جانور پالنے اور کھیتی باڑی کے ہنر سے واقف تھے اور نہ ہی اس کام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہیں کیمپوں میں قید کردیا گیا اوراسلحہ کے بل بوتے پر ان سے پلانٹیشنز میں کام لیا جانے لگا۔ ان حالات میں کچھ قبائلی گروہوں نے غلامی کی ذلت برداشت کرلی لیکن دوسرے قبائلیوں نے مزاحمت کی اور ساحلی علاقے چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں چلے گئے۔ اس کرۂ ارض پرہزاروں سالوں سے حملوں کی یہی بے رحم تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ ہر نیا حملہ آور نئی زمین پر قبضہ کرتے ہی مقامی باشندوں کو اپنا غلام تصور کرنے لگتا ہے اور پھر جدید اسلحہ اور فوجی طاقت کی مدد سے انہیں‘ ان کی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

Spanish Imperialist Occupation on Cuba

کیوبا پر ہسپانوی سامراجی تسلط
    جنوبی امریکا کی فوجی آمریتوں کے بھیانک جنگل میں جب کیوبا کے انقلابی نوجوان آزادی‘ انقلاب اور سماجی انصاف کا پرچم لے کر اٹھے تو میکسیکو سے برازیل تک ہی نہیں بلکہ افریقا‘ ایشیا اور یورپ تک کی یونیورسٹیاں بھی کیوبا‘ فیدل کاسترو اور چی گویرا کے ناموں سے گونجنے لگیں۔ ایک چھوٹے سے جزیرے سے اٹھنے والی نوجوانوں کی یہ انقلابی آواز بڑی دلکش اور دل آویز تھی۔ شمالی امریکی سامراج سے صرف نوے میل دور‘ کیوبا کے انقلابی اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے تقریباً آدھی صدی سے تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں۔ کل کیا ہوگا؟ یہ کسی کو نہیں معلوم لیکن آج کے عہد کا سب سے بڑا سچ کیوبا ہے۔

جغرافیہ
    جزائرِ کیوبا خلیج میکسیکو کے دہانے پر واقع ہیں۔ اس کا سب سے بڑا جزیرہ کیوبا مچھلی سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے اردگرد 1600چھوٹے چھوٹے جزیرے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے شمال میں بحرِ اوقیانوس اور جنوب میں بحرِ کیریب ینز ہے۔ اس کا رقبہ 44218 مربع میل ہے۔ اس کا 40 فیصد پہاڑی حصہ گھنے جنگلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس کی چوڑائی کہیں صرف 22 میل اور کہیں 124 میل ہے۔ اس کا ساحل 2175 میل لمبا ہے اور اس کی آبادی 11,382,820 ہے۔ اس چھوٹے سے جزیرے کے پاس دنیا کی بہترین بندرگاہیں ہیں مثلاً حوانا‘ گوانتا نامو‘ باحیا‘ حوندا‘ سانتیاگو دی کیوبا وغیرہ۔ کیوبا کا موسم معتدل ہے اور بارش خوب ہوتی ہے۔

کیریب ینز کا علاقہ
    کیوبا کی تاریخ کیریب ینز کے علاقے سے جڑی ہوئی ہے۔ جزائر کیریب ینز شمالی اور جنوبی امریکا کے درمیان پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں کیوبا‘ حیٹی‘ پورتوریکو اور جمیکا نسبتاً بڑے جزیرے ہیں۔ اس علاقے میں ہزاروں سالوں سے اراواک اورکیریب قبائل رہتے تھے۔ آبادی بہت کم تھی۔ موسلادھار بارش‘ گھنے جنگلات اور سمندر کی قربت کے باعث اس علاقے میں رہنے والوں کا انحصار بھی مچھلیاں پکڑنے اور جنگلی جانوروں کے شکار پر تھا۔ یہاں مچھیروں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں۔
    پندرہویں صدی میں ہسپانوی بحری قزاق ان بستیوں میں پہنچے۔ جب نوکا جہاز سے ٹکرائی‘ جب تیرکمان‘ گن اور توپ کے مقابل ہوئے‘ جب کھلے بدن اور ننگے پیروں کا مقابلہ گھڑسواروں سے ہوا تو ان کے درمیان فاصلہ کئی عہد کا تھا۔ پتھر کے عہد سے لوہے کے زمانے تک کی دوری۔ پھر قتل و غارت‘ لوٹ مار اور استحصال کے ایک ایسے عہد کا آغاز ہوا‘ جس نے قدیم قبائل کی آزادی اور خوشیاں چھین لیں۔ اراواک اور کیریب قبائل کی اکثریت ہلاک کردی گئی۔ یہ جزیرے اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے لیے کہیں دور فرار ہو جانا بھی ممکن نہیں تھا۔
    ابتدا میں تمام جزائر پر اسپین قابض تھا۔ لیکن شمالی امریکا پر قبضہ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے بھی چند چھوٹے چھوٹے جزیرے اسپین سے چھین لیے تھے۔ کیریب ینز جزائر بحرِ اوقیانوس میں یورپ اور شمالی امریکا کے درمیان تجارتی بحری راستہ پر واقع تھے اور ان جزائر پر کنٹرول کر کے اس بحری تجارت پر برتری حاصل کی جاسکتی تھی۔ اب اس علاقے پر فقط اسپین کا تسلط نہیں تھا۔ اسپین‘ برطانیہ‘ فرانس اور ہالینڈ جب یورپ اور ایشیا میں زمین کے ٹکڑوں اور تجارتی لوٹ کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے تھے تو پھر یہ حسین جزائر بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آجایا کرتے تھے۔ 1655 میں برطانیہ نے جمیکا پر اور فرانس نے حیٹی کے آدھے جزیرے پر قبضہ کرلیا۔
    سامراجی تاجروں اور بحری قزاقوں پر یہ انکشاف ہوچکا تھا کہ ان جزائر کی زمین اور موسم گنے کی پیداوار کے لیے بہترین ہیں۔ یورپ میں شکر کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ ہزاروں ہسپانوی‘ برطانوی‘ فرانسیسی اور ولندیزی امیگرانٹس بغیر کسی پاسپورٹ اور ویزا کے ان جزائر میں آباد ہو گئے۔ شمالی امریکا میں تو پہلے ہی ہزاروں کٹر پیوری ٹنز فرقہ کے انگریز قدیم امریکی قبائل سے ان کی زمین چھین چکے تھے۔ برطانیہ اور فرانس نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مزید کئی چھوٹے چھوٹے جزیروں پر قبضہ کرلیا تھا۔ یورپ کے سامراجیوں کی آپس کی جنگوں نے اس علاقے میں تشدد اور نفرت کو پھیلایا۔ ان جزائر میں قدیم دور میں کبھی بھی ایسی وحشیانہ جنگیں نہیں ہوتی تھیں۔ فلسفہ‘ ادب‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ اور سائنس کی علمی دنیا میںمنطقی دلائل پیش کرنے والوں کا اصلی چہرہ بڑا بھیانک تھا۔

The Fidel Castro's Cuba

فیدل کاسترو کا کیوبا

    بیسویں صدی انسان کے تاریخی اور سیاسی شعور کی بیداری کی صدی ہے۔ اس صدی کی دہلیز پر پہلا قدم رکھنے کے کچھ ہی دن بعد دنیا کو پہلی جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ ایک ایسی آفت ہے کہ ہزاروں مسائل کو جنم دیتی ہے۔ لیکن یہ ایسی کچھ نئی چیزوں کو سامنے لاتی ہے کہ اس سے آدمی کی عقل و خرد کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔
’خدا شرِّ برانگیزَد کہ خیرِمن درآں باشد‘

    دیکھیے اس جنگ کے کچھ ہی عرصہ کے بعد مارکس ولینن کی جدوجہد سے 1917میں انقلابِ روس برپا ہوا اور یہ دنیا کے لیے ایک خوش گوار تجربہ تھا‘ جس سے پہلی بار مزدور اور کسان جن کا نام تاریخ میں ملتا ہی نہیں‘ ایک اہم کردار کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔ اس کے اثرات مغرب و مشرق ہر طرف نئی نئی تحریکوں کی شکل میں دکھائی دینے لگے۔ دنیا اس نئے تجربہ سے ابھی پوری طرح فیضیاب بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ اس بار تباہی و بربادی کے اثرات بہت گہرے تھے‘ لیکن تاریخ کے اصول کے مطابق اس کے فوراً بعد چین میں ایک عوامی انقلاب برپا ہوا ۔ جس کے اثر سے ایشیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی میدانِ عمل میں نکل آئے اور مغربی طاقتوں کی غلامی کا جُوا اتار پھینکا جیسے کوریا اور ویت نام۔
    ان چھوٹے ملکوں کی جدوجہد اور استقامت پر نظر ڈالیے تو انسان کا حوصلہ کس قدر بلند ہوتا ہے اور ہر جگہ ظالموں کی صف میں وہی بڑی طاقت نمایاں ہے جو آج بھی دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ لیکن اس طاقت کے خلاف جس ملک کی جدوجہد سب سے زیادہ حیران کُن ہے‘ وہ جنوبی امریکا میں فیدل کاسترو کا کیوبا ہے۔ اس ملک کی نمایاں خوبی جس سے ہم بہت متاثر ہوئے ہیں وہ جذبہ کی شدت کے ساتھ اس کی دانش مندی اور تدبر ہے۔ اس نے روس کی مدد ضرور حاصل کی لیکن دنیا کی گروہ بندی میں بہت سنبھل کر چلتا رہا۔ اُس کے اِس انداز کی وجہ سے رعب اور دبدبے سے زیادہ اس سے ایک اپنائیت اور اُنسیت کا رشتہ استوار ہوگیا تھا۔

’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ‘

    ہمیں کیوبا کے تعلیمی معیار اور صحت کے نظام سے بڑا سبق حاصل ہوتا ہے۔ اسے صرف اعلیٰ کارکردگی اور ذہانت کہہ کر بات ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس کی تہ میں وہی انسانی بھلائی کی لگن شدت سے کارفرما نظر آتی ہے۔
 

Nov 20, 2009

Young India Sabha

نوجوان بھارت سبھا

    بہار کا موسم تھا اور ایک غلام ملک میں بھی قانونِ فطرت‘ خزاں کی زنجیریں توڑ کر کونپلیں‘ کلیاں اور پھول لیے ہند کے نوجوانوں کو خوشبو کا‘ محبت کا اور امیدکا پیغام دے رہا تھا۔ مارچ کا مہینہ تھا‘ وہی مارچ جس کی بھگت سنگھ کی زندگی میں بڑی اہمیت تھی۔بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے لاہور میں مارچ 1926 میں نوجوان بھارت سبھا قائم کی۔ اس جلسے میں سکھ دیو‘ بھگوتی چرن ووہرا‘ رام کشن‘ بھگت سنگھ اور کئی دوسرے نوجوان شریک ہوئے۔ رام کشن کو اس کاصدر اور بھگت سنگھ کوسیکریٹری چُنا گیا۔ وہ اسکول اور کالج کے طالب علموں کے مسائل حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے لگے۔انہوں نے طالب علموں کے لیے سماجی اور ادبی پروگرام بھی منعقد کیے۔ لیکن جلد ہی وہ نوجوان بھارت سبھا کے جلسوں میں ہند کی آزادی کامطالبہ کرنے لگے۔ انہوں نے ملک میں کسانوں اور مزدوروں کی حکومت قائم کرنے کے لیے پروگرام پیش کیے ۔ ڈی اے وی کالج ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ وہ ان جلسوں میں ملک کو درپیش معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی مسائل پر بحث کیا کرتے تھے۔ وہ وطن کی آزادی کی راہ میں شہید ہونے والوں کی یادمیں ہمیشہ جلسے منعقد کرتے تھے۔ انہوں نے کرتاسنگھ سرابھا اور اور مدن لال ڈھینگڑا کی یاد میں جلسے کیے۔ انہیں یقین تھا کہ وطن کی آزادی کے لیے قربان ہو جانے والے امر ہو جاتے ہیں۔
    نوجوان بھارت سبھا کو بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ برطانیہ کے خلاف طالبعلموں اور پروفیسروں کی سرگرمیوں کو پنجاب کی سرکار بڑی ناراضگی کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ یہ نوجوان ہندوستان میں مکمل آزادی کے خواہاں تھے ۔ اسی لیے وہ نوجوانوں سے اپیل کرتے تھے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔روس‘ چین‘ جاپان‘ اور ترکی میں ہونے والی دور رس تبدیلیوں کوسمجھیں اور ان بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں ہند کی آزادی اور اس کے مستقبل پر غور کریں۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک کسان‘ مزدور اور متوسط طبقہ حکومت پر قبضہ نہیں کرے گا‘ موجودہ استحصالی نظام ختم نہیں ہوگا۔ ان کا آئیڈیل ایک عوامی انقلاب تھا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی کا کوری سازش کیس میں گرفتار سچندرناتھ سانیال اور جوگیش چٹرجی کو جیل سے آزاد کرواناچاہتے تھے‘ لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔نوجوان بھارت سبھانے کا کوری کیس کے خلاف مسلسل جلسے اور مظاہرے کیے‘ لیکن ان کا احتجاج نوجوان انقلابیوں کو نہیں بچا سکا۔

Kakori Conspiracy Case


کاکوری سازش کیس
شہیدان حریت کی یادمیں
خاک کاکوری میں ہے خونِ شہادت کا یہ رنگ
ذرہ ذرہ لعل ہے یا قوت ہے بیجادہ ہے
پھول پھل لانے کو ہے اُگتے ہی آزادی کا بیج
کل وہی استادہ ہوگا آج جو افتادہ ہے
                            ظفر علی خاں
    صوبۂ متحدہ میں چندرشیکھر آزاد اور رام پرساد بسمل نے ایچ ۔آ۔ر اے کوبڑی محنت سے منظم کیاتھا۔ انقلابی پارٹیوں میں شامل نوجوان عام طور پر متوسط‘ کسان اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے انہیں سیاسی سرگرمیوں میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ پارٹی کی مالی اور ہتھیاروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈاکے ڈالا کرتے تھے۔ رام پرساد بسمل کا خیال تھا کہ ہندوستان میں سب سے بڑا ڈاکوخود برطانوی سرکار ہے‘ جس نے فوجی طاقت کے بل پر ہندوستان پر قبضہ کیا ہے۔ اس لیے سرکاری خزانے کو لوٹ کر اخراجات پورے کیے جائیں۔ 9/اگست 1925کودس انقلابی نوجوانوں نے سہارن پور سے لکھنؤ جانے والی ٹرین کو کاکور ی ریلوے اسٹیشن کے قریب روکا۔ ٹرین کے ایک ڈبے میں رکھی ہوئی لوہے کی سرکاری تجوری کو بڑی مشکل سے توڑا گیا‘ اس میں صرف 4679روپے تھے۔ اس ڈاکے کے بعد غیر ملکی حملہ آور نے انقلابیوں پر سخت حملہ کیا۔ صوبہ متحدہ میں پولیس چھاپوں اور گرفتاریوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا‘ لیکن چندر شیکھر آزاد جو اس حملے میں شریک تھا‘ فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ ایچ ۔آ۔ر اے کے اکثر کارکن جیلوں میں ڈال دیئے گئے۔ جس شخص پر پولیس کو معمولی سا شبہ ہوتا‘ اسے گرفتار کرلیا جاتا اور پھر سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
    کاکوری سازش کیس کے تحت 29 ہندوستانی انقلابی نوجوانوں پر دشمن حملہ آور نے مقدمہ قائم کیا۔ ان کے دو ساتھی وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ ان انقلابی نوجوانوں نے پولیس تھانوں اور جیلوں میں پولیس تشدد کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال کی۔ یہ مقدمہ ایک سال تک جاری رہا۔ یہ انقلابی نوجوان اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ یہ قانونی کھیل تو فقط ایک تماشا ہے اور غیر ملکی سرکار انہیںسخت سزا دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ وہ کورٹ کی کارروائی کو نظرانداز کر کے انقلابی گیت گاتے یا انقلاب زندہ باد اور سامراج مردہ باد کے نعرے لگایا کرتے تھے۔اسی زمانے میں یہ اشعار لکھے گئے اور قوم پرست ہندوستانیوں میں بے حدمقبول ہوئے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
    غیر ملکی حملہ آور کی کورٹ نے چار ہندوستانی نوجوانوں رام پرساد بسمل‘ ﴿شاہ جہاں پور﴾ اشفاق اللہ خان ﴿شاہ جہاں پور﴾ روشن سنگھ ﴿شاہ جہاں پور﴾اور راجندرناتھ لاہیری ﴿موہن پور‘ ضلع پبنہ بنگال﴾ کو پھانسی کی سزا سنائی ۔ پانچ انقلابیوں کو عمر قید اور بقیہ کو مختلف مدت کی سزائیں دی گئیں۔ ان سزائوں کے خلاف پورے ملک میں سخت احتجاج ہوا‘ جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔ موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرووغیرہ نے موت کی سزا کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ صوبہ متحدہ میں انگریز کی قائم کردہ لیجس لیٹو کونسل کے سب غیر سرکاری ارکان نے پھانسی کی سزا کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس سلسلے میں کی گئیں سب اپیلیں اور احتجاج حقارت سے ٹھکرا دیئے گئے۔ دشمن قابض ملک یہ بتا دینا چاہتا تھا کہ وہ ہندوستانی غلاموں کو کچل دینے کی پوری طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے۔
    یہ سب نوجوان کئی سالوں سے برطانیہ کے خلاف مسلح لڑائی میں حصہ لے رہے تھے۔ ان چاروں نوجوانوں نے شیر گنج‘ بیج پوری اور منی پوری وغیرہ کے حملوں میں حصہ لیا تھا۔ وہ مادرِ وطن کے لیے جان نچھاور کرنا باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔ چاروں انقلابیوں کو سزا کے بعد الگ الگ جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ اس لیے انہیں پھانسی بھی چار مختلف جیلوں میں دی گئیں۔ راجندر ناتھ لاہیری کو گونڈا جیل میں 17/دسمبر 1927کو اور اشفاق اللہ خاں کو فیض آباد جیل میں 18/دسمبر 1927 کوپھانسی دی گئی۔ اشفاق اللہ کی گردن پر قرآن بندھا ہوا تھا۔ وہ شاعر بھی تھا اور اس نے پھانسی سے پہلے یہ شعر پڑھا تھا۔
کچھ آرزو نہیں ہے‘ ہے آرزو تو یہ
رکھ دے کوئی ذرا سی خاکِ وطن کفن میں

    روشن سنگھ کو نینی تال سینٹرل جیل میں 20/دسمبر 1927کوپھانسی دی گئی‘ اس کے ہاتھ میں گیتا اور ہونٹوں پر بندے ماترم تھا۔ رام پرساد بسمل نے گورکھ پور ضلع جیل میں 19/دسمبر 1927کو پھانسی کی سزا دیے جانے سے پہلے کہا تھا کہ ۔
    ’میری آرزو ہے کہ برطانوی سامراج تباہ ہو جائے ‘۔
    اس برطانوی تشدد نے صوبہ متحدہ میں ایچ۔ آر۔ اے کو بہت کمزور کردیا تھا‘ لیکن پھر بھی وہ قائم رہی۔ چندرشیکھر آزاد نے بڑی محنت سے نئے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ مل کر پارٹی کو نئے سِرے سے منظم کیا۔
کھنچو گے ابھی تختۂ دار پر تم
ابھی تم کو پھانسی پر جانا پڑے گا
بہت سے کڑے مرحلے راہ میں ہیں
یہ طے کر کے منزل تک آناپڑے گا
                        احمق پھپھوندی  ﴿محمد مصطفی خاں﴾

India Republican Association

ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن
    تحریکِ سول نافرمانی کے اثرات ہندوستان پر بہت گہرے تھے۔ وہ نوجوان جنہوں نے سول نافرمانی کی تحریک میں زوروشور سے حصہ لیا تھا اور برطانوی تشدد کا سامنا کیا تھا۔ ان میں کانگریس کی قیادت کے خلاف بیزاری اور ناراضگی تھی۔ وہ بڑے زمین داروں‘ سرمایہ داروں اور بیرسٹروں کی پارٹیوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ انہیں اس امر کاشدیداحساس تھا کہ انہیں اپنے راستے خود تلاش کرنے ہوں گے ۔ سول نافرمانی کی تحریک کے شروع ہونے سے پہلے بھی ہندوستان کے کئی صوبوں میں چھوٹی چھوٹی مسلح انقلابی پارٹیاں قائم ہوگئی تھیں۔ انہوں نے پُرامن تحریک پر انگریزحملہ آور کا ظلم و تشدد دیکھ لیا تھا۔ اب دوبارہ مختلف صوبوں میں انقلابی گروپ بننے لگے تھے۔ ان سب کا مقصد ہند کی آزادی کے لیے سیاسی اور مسلح جدوجہد کرنا تھا۔
    صوبۂ متحدہ کے انقلابی بھی اپنی مسلح سرگرمیاں ترک کرکے سول نافرمانی کی قومی تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔ وہ اہنسا کے فلسفے سے متفق نہیں تھے۔پھر بھی انہوں نے سوچا کہ شاید اس قومی جدوجہد سے ہندوستان آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن سیاست کی بے رحم حقیقت میں کوئی شاید نہیں ہوتا ۔ 1923 سے کئی انقلابی صوبۂ متحدہ میں کام کر رہے تھے۔ سچندر سنیال‘ جوگیش چندر چٹرجی‘ راجندر ناتھ لاہیری اور ستیش چندر سنہانے کئی شہروں میں انقلابی گروپ قائم کیے۔ انقلابیوں کی ایک کانفرنس اکتوبر 1924میں کانپور میں منعقد ہوئی۔ کانپور--- ہاں یہ وہی شہر تھا‘ جہاں 1857کی جنگِ آزادی میں حصہ لینے والے سینکڑوں حریت پسندوں کو درختوں پر پھانسی پر لٹکایا گیاتھا اور ان کی لاشیں کئی دنوں تک درختوں پر لٹکتی رہتی تھیں۔ یہیں نانا رائو اور عظیم اللہ نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ اسی شہر میں ہندوستان کے کئی صوبوں کے انقلابی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ انہوں نے ایک نئی متحدہ پارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا نام ہندوستان ری پبلیکن ایسوسی ایشن رکھا گیا۔ اس کا مقصد مسلح انقلاب کے ذریعہ ملک میں فیدرل طرز کی ایک آزادجمہوریہ قائم کرنا تھا۔ ایک مرکزی کمیٹی اور کئی صوبائی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ کانپور میں قیام کے دوران بھگت سنگھ نے ایچ ۔آر۔ اے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اسی شہر میں اس کی ملاقات چندرشیکھر آزاد اور وجے کمار سنہا سے ہوئی۔

Revolutionary Struggle

انقلابی جدوجہد

اٹھ جاگ وطن دیا شیرا
گھر لٹیا فرنگیاں تیرا

    ہندوستان میں سول نافرمانی کی تحریک کے دوران ہزاروں طالب علموں نے سرکاری تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا تھا‘ لیکن اس تحریک کے خاتمے کے بعد ان سرکاری اداروں نے طلبائ کو دوبارہ داخلہ دینے سے انکار کردیا۔ ان طلبائ کی مشکلات حل کرنے کے لیے کئی قومی تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ لاہور میں بھی قوم پرست عناصر نے نیشنل کالج قائم کیا۔ بھگت سنگھ نے اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اسی کالج میں بھگت سنگھ کی ملاقات سکھ دیو سے ہوئی۔ یہاں اسے پروفیسر جے چند ودھیا لنکار جیسے بلند پایہ تاریخ کے استادملے ۔ بھگت سنگھ نے 1922مئی میں نیشنل کالج سے انٹر کیا۔
    اس دور کے ہندوستان کے سامنے بڑے کٹھن مسائل تھے‘ ان گنت سوالات تھے‘ سب سے اہم اور گمبھیر سوال تھا--- آزادی؟ مضطرب نوجوان طبقہ اکثر ان موضوعات پر بحث میں اُلجھا رہتا تھا۔ بھگت سنگھ کا حال ان سے مختلف نہیں تھا۔ وہ ان مسائل کے بارے میں سوچتا رہتا تھا‘ بے شمار سوالات اس کے ذہن میں اٹھتے تھے جن کا کوئی آسان دو ٹوک جواب نہیں تھا۔ اسے شدید احساس تھا کہ ان مسائل کو‘ علم حاصل کیے بغیر‘ کتابیں پڑھے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا اور اس تلاش‘ اس جستجو کا سفر اسے خودطے کرنا ہوگا۔ جب اس نے کتابیں پڑھنی شروع کیں تو علم کی ایک وسیع دنیا اس کے سامنے تھی‘ ایک بحرِ بے کراں تھا۔ وہ مسلسل پڑھتا رہتا تھا‘ اس کا بے چین ذہن‘اس کا جوشیلا مزاج‘ اس کے لہو میں رچے سوالوں کا جواب چاہتا تھا---کرتارسنگھ سرابھا کو پھانسی کی سزا‘ جلیان والا باغ کا قتلِ عام‘ ہندوستان کی غلامی کی زنجیر اور اہلِ ہند کی بدحالی--- وہ اتنا کچھ جاننا اور سمجھنا چاہتا تھا۔ سارے دن وہ لائبریری کی کتابوں میں گُم رہتا‘ فلسفہ ‘ تاریخ‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ ناول ‘ کہانی‘ شاعری‘وہ سب کچھ پڑھ لینا چاہتا تھا۔ یہ کتابیں اسے اپنے ان دوستوں کی طرح عزیز تھیں جو اسی کی طرح بے چین تھے اور اسی کی طرح ناانصافی کو مٹا دینے کی آرزو دل میں رکھتے تھے۔ یہ تڑپ اور یہ کتابیں‘ اسے انگلی پکڑے ان جانی پگڈنڈیوں پر لے جارہی تھیں۔ یہ کتابیں ایسے ہی لوگوں نے لکھی تھیں‘ جن کے حساس ذہن انسانی سماج کے دکھوں کو ختم کردینے کے لیے بے چین تھے۔ اس تڑپ کے بغیر کوئی جدوجہد‘ کوئی کوشش ممکن نہیں تھی۔ وطن کی چاہت کی طرح کتابوں سے عشق بھی بھگت سنگھ کے تن من میں سما چکا تھا۔ بچپن کی معصومیت اور بے فکری کی دہلیز کو پارکرجانے والا یہ لڑکا اب علم و انقلاب کی دشوار گزار راہوں کا مسافر تھا۔
    اسی زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا‘ جس نے بھگت سنگھ کی زندگی کو بدل ڈالا۔ اس کے دادا‘ دادی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ بھائی بہنوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس کے پانچ چھوٹے بھائی بہن تھے۔ امرکور‘ سمتراکور‘ شکنتلا‘ کلبیر سنگھ اور کلتار سنگھ۔ اس کی دادی چاہتی تھیں کہ اس کی شادی کردی جائے۔ کشن سنگھ اپنی ماں سے بہت پیار کرتے تھے‘ ماں کی خوشی میں ان کی خوشی تھی۔ انہوں نے بھگت سنگھ کی رائے پوچھے بِنا اس کا رشتہ طے کردیا‘ لیکن ان کا بیٹا بھگت سنگھ تو کسی اور ہی عشق کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ اس نے بڑی حیرت سے والد کے نام ایک خط لکھا۔
محترم والد صاحب!
        یہ وقت شادی کا نہیں ہے‘ مجھے وطن پکار رہا ہے‘ میں نے عہد کیا ہے کہ تن من دھن سے ملک کی خدمت کروں گا اور پھر یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارا پورا خاندن وطن پرستوں سے بھرا پڑا ہے۔ میری پیدائش کے دو تین سال بعد 1910مئی میں چاچا سورن سنگھ کا جیل میں انتقال ہوگیا۔ چاچااجیت سنگھ بیرونِ ملک جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ آپ نے بھی جیل میں بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ میں صرف آپ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں اور اس لیے میں نے یہ حوصلہ کیا ہے۔ براہ کرم آپ مجھے شادی کے بندھن میں نہ باندھیں‘ بلکہ میرے حق میں دعا کریں کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکوں‘
    اس کے والد انکار نہیں سن سکتے تھے‘ انہوں نے بھگت سنگھ کولکھا۔
پیارے فرزند!
    ’ہم نے تمہاری شادی طے کردی ہے۔ ہم نے دلہن کو بھی دیکھ لیا ہے۔ ہمیں وہ اور اس کے والدین پسند ہیں۔ مجھے اور تمہیں بھی‘ تمہاری دادی کی خواہش کااحترام کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ میرا حکم سمجھو کہ شادی میں تم کوئی رکاوٹ نہیں ڈالو گے اور اس کے لیے خوشی خوشی تیار ہو جائو گے‘۔
    بھگت سنگھ بہت رنجیدہ تھا۔ آخر اس کے والد‘ اس کے نقطۂ نظر کوسمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اس نے انہیں جواب میں لکھا ۔

محترم والد صاحب!
    ’آپ کا خط پڑھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ آپ جیسا سچا محبِ وطن اور بہادر شخص بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے متاثر کیا جاسکتا ہے تو پھر ایک عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟ آپ دادی کی فکر کررہے ہیں لیکن یہ خیال نہیں کررہے کہ ہم 33 کروڑ افراد کی ماں--- مادرِ ہند کتنی تکلیف میں ہے۔ ہمیں اس کے لیے سب کچھ قربان کرنا ہوگا‘۔
    بھگت سنگھ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے والدِ اب اس کی کسی دلیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ کاش اس کے والد اس کے نقطۂ نظر کو سمجھ سکتے اور خود اپنا فیصلہ تبدیل کرلیتے‘ وہ اپنے کسی عمل سے انہیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ وہ اپنے والد سے‘ ماں سے‘ سب گھر والوں سے بہت پیار کرتا تھا‘ لیکن اسے مجبوراً گھرچھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اس نے جانے سے پہلے اپنے والد کو ایک خط لکھا۔
’میں نے اپنی زندگی مادرِ وطن کی خدمت جیسے اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کردی ہے۔ اس لیے میرے لیے گھر اور دنیاوی خواہشوں کی تکمیل میں کوئی کشش نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میری زنّار پوشی کی رسم کے موقع پر باپوجی نے یہ اعلان کیا تھا کہ مجھے ملک کی خدمت کے لیے وقف کیا جارہاہے۔ میں صرف اس قول کو پورا کررہا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے‘۔
    اس نے لاہور ریلوے اسٹیشن پر اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ
    ’اگر میری شادی غلام ہندوستان میں ہوئی تو میری دلہن صرف موت ہی ہوگی۔ میرا جنازہ ہی میری بارات ہوگا اور باراتی ہوں گے اس ملک کے شہید‘۔
    بھگت سنگھ گھر اور کالج چھوڑکر کانپور چلا گیا۔ اس کم عمری میں بھی اسے اپنے آپ پر بڑا اعتماد تھا۔ یہی اعتماد‘ یہی قوتِ ارادی ہرمشکل مرحلے پر اس کی رہنمائی کرتی تھی۔ اس نے اپنے تاریخ کے پروفیسر سے علی گڑھ‘ آگرہ اور کانپور کے انقلابیوں کا ذکر سنا تھا۔ قیدی زندگی کے مصنف مشہورانقلابی سچندرناتھ سانیال نے اسے ایک تعارفی خط دیا تھا۔ اس نے ایک بڑا مشکل قدم اٹھایا تھا‘ لیکن وہ اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اس فیصلے پر قائم رہنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اسے اپنے ماں باپ سے بڑی محبت تھی لیکن مادرِ وطن سے چاہت کا رشتہ اور سرزمین ہندکی آزادی کاعہد ہر انفرادی رشتے ناتے سے بلند تر تھا۔ کانپور میں اس نے اپنا نام بلونت سنگھ رکھ لیا۔ یہاں اس کی ملاقات کئی انقلابیوں سے ہوئی اور جلدہی یہ ملاقاتیں دوستی میں بدل گئیں۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے مختلف ملازمتیں کیں۔ اس نے کالج ہوسٹل میں اپنے بنگالی انقلابی دوست باتوکیشوردت سے بنگالی سیکھی۔ قاضی نذر الالسلام کی مشہور نظم بدروہی ﴿باغی﴾ جو انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران 1921ئ میں لکھی تھی‘ ا ب بھی نوجوانوں میں بے حد مقبول تھی۔ بھگت سنگھ اور باتوکیشوردت اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اکثر یہ نظم گایا کرتے تھے ۔
جواں مرد کہہ دے میں ہوں سربلند
ہمالہ کی بھی چوٹیوں سے بلند

تباہی ہوں‘ دہشت ہوں‘ طوفان ہوں
سراپا ہلاکت کا سامان ہوں

کچل دینا ہر ایسے قانون کو
بہائے جو انصاف کے خون کو
میں صحرا کا ہوں جھلماتا سراب
میرا کارواں‘ اضطراب‘ اضطراب
    ﴿یہ ایک طویل نظم ہے اور اس کا ترجمہ اثر لکھنوی نے کیا ہے﴾۔
    بھگت سنگھ کے دوست اجے کمار گھوش کا تعلق کانپور سے تھا۔ وہ 1951سے 1962تک ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ بھگت سنگھ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔
    ’یہ شاید 1923 کی بات ہے جب میں بھگت سنگھ سے پہلی بار ملا تھا۔ اس وقت میںپندرہ سال کاتھا اور وہ میراہی ہم عمر تھا۔ کانپور میں باتوکیشوردت نے مجھے اس سے ملوایا تھا۔ لمبا اور دُبلا‘ بوسیدہ سے کپڑے پہنے‘ بڑا خاموش سا جیسے عموماً گائوں کے لڑکے ہوتے ہیں‘ جن میں خود اعتمادی اور تیزی نہیں ہوتی۔ میںنے اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی اور جب وہ چلا گیا تو یہ بات میں نے دت سے بھی کہہ دی۔ کچھ دن بعدمیں پھر اس سے ملا۔ ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ یہ وہ دن تھے جب ہم کم سن لڑکوں کی طرح انقلاب کے خواب دیکھتے تھے۔ بس یوں لگتا تھا کہ انقلاب آنے ہی والاہے ‘ بس چند سالوں کی بات ہے۔ لیکن بھگت سنگھ کو اس بات پر ایسا اعتماد نہیں تھا۔ میں اس کے الفاظ بھول گیا ہوں‘ لیکن مجھے یاد ہے کہ اس نے کہا تھا کہ ملک میں بے حسی اور جمود طاری ہے‘ عوام کو بیدار کرنا مشکل ہے‘ ہمارے سامنے بھاری رکاوٹیں ہیں۔ اس کے بارے میں میرے پہلے تاثر کی تصدیق ہو گئی۔ پھر ہم پچھلی انقلابی کوششوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ جب 1915-16 کے شہیدوں کا ذکر ہوا اور پہلے لاہور سازش کیس اور خاص طور سے کرتار سنگھ سرابھاکا نام آیا تو بھگت سنگھ کا لہجہ اور انداز ہی بدل گیا۔ ہم دونوں میں سے کوئی بھی اس سے نہیں ملا تھا۔ ہم بچے تھے‘ جب اسے پھانسی دی گئی۔ لیکن ہم یہ جانتے تھے کہ وہ صرف اٹھارہ سال کا نوجوان تھا‘ پھر بھی غدر تحریک کے رہنمائوں میں اس کا نام آتا تھا۔وہ ایک نڈر لڑاکا اور بہترین منتظم تھا‘ اس کے دشمن تک اس کی تعریف کرتے تھے۔ میں اس کی پرستش کرتاتھا اور اپنے ہیرو کی اس قدر تعریف سن کر خوش ہوگیا تھا‘ مجھے بھگت سنگھ اچھا لگا۔ اس کے کانپور سے چلے جانے سے پہلے ہی ہم قریبی دوست بن گئے تھے‘ لیکن میں نے اس کے مایوس کن خیالات کامذاق اڑاناکبھی ترک نہ کیا‘۔
    بھگت سنگھ کی کتابوں سے دوستی کانپور میں بھی جاری رہی۔ یہاں اس نے سوشلزم پر کئی کتابیں پڑھیں۔ اس کے والد اسے مسلسل ڈھونڈ رہے تھے۔ دادی اس کے غم میں بیمار تھیں۔ آخرکار وہ بھگت سنگھ کے دوستوں سے اس کا پتہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اسے کئی خط لکھے کہ وہ گھر واپس آجائے‘ لیکن وہ نہ مانا۔آخر تھک کر انہوں نے مشہور قوم پرست رہنما حسرت موہانی سے مدد کی درخواست کی اور انہیںیقین دلایا کہ بھگت سنگھ کو اس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ کانپور میں بھگت سنگھ ‘ حسرت کے سودیشی اسٹور پر اکثر جایا کرتاتھا۔ سب قوم ست نوجوان حسرت موہانی کی بے حد عزت کرتے تھے اور ان پر جان چھڑکتے تھے۔ انہوں نے بھگت سنگھ کو سمجھایا‘ وہ ان کی بات مان کر گھر واپس چلا گیا۔ اس کے والد نے حسرت سے کیا ہوا وعدہ نبھایا اور پھر اسے شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
    بھگت سنگھ کچھ عرصہ گائوں میں اپنے والدین کے پاس رہا۔ پھر وہ کسانوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے پنجاب کے دیہاتوں میں گھومنے لگا۔ اسی زمانے میں گردوارے کی رقم خردبرد کرنے پر سکھ کسان اور مزدور سیاہ جھنڈے اٹھا کر رقم کھانے والوں‘ سرکار اور پولیس کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ ان مظاہرین کا ایک جلسہ بھگت سنگھ کے گائوں میں ہوا۔ جس میں بھگت سنگھ نے بھی تقریر کی۔ شاید یہ اس کی پہلی سیاسی تقریر تھی۔ اس تقریرمیں اس نے بنگال اور آئرلینڈ کی انقلابی تحریکوں کی تعریف کی۔ برطانیہ کی غلام پولیس ایک گائوں میں بھی اپنے آقاپر تنقید برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ پولیس نے بھگت سنگھ کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ بنایا اور گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ اس گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ لاہور اور پھر وہاں سے دلی چلا گیا۔

Nov 18, 2009

The First Civil Disobedience Movement

پہلی سول نافرمانی کی تحریک
    مولانا ابوالکلام آزاد اور علی برادران جنگ ختم ہونے کے بعد بھی فرنگی جیلوں میں نظر بند تھے۔ 19/ستمبر 1919کو کئی مسلمان رہنمائوں نے ممبئی میں ایک آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کی۔ اس سے پہلے دسمبر 1918میں مسلم لیگ نے اپنے دلی کے اجلاس میں ہندوستان کے سب فرقوں سے اپیل کی تھی کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کی مدد کریں۔ محمد علی جناح نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی اور اس اجلاس سے واک آئوٹ کر گئے تھے۔ خلافت کمیٹی کے قیام کے دو مہینے بعد موہن داس گاندھی اس میں شامل ہو گئے۔ وہ اس کمیٹی کے واحد ہندو رُکن تھے۔ گاندھی اکیس سال جنوبی افریقہ میں رہنے کے بعد 1915میں ہندوستان واپس آئے۔ دنیا میں برترین نسلی امتیاز روا رکھنے والے ملک جنوبی افریقہ میں وہ نسلی منافرت کے خلاف عدم تشددکی تحریک کے دوران مشہور ہوئے تھے۔ انہوں نے اور انڈین نیشنل کانگریس نے یورپی سامراجیوں کی جنگ میں برطانیہ کی حمایت کی تھی‘ بلکہ گاندھی نے صوبۂ گجرات میں گائوں گائوں گھوم کر نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوں نے فوجی بھرتی کے حق میں کئی پمفلیٹ لکھے۔ ایک پمفلیٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ۔
’سوراج کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ایمپائر کے دِفاع کو مضبوط بنانا ہے۔ کیونکہ اگر ایمپائر ختم ہو گئی تو ہماری امیدوں اور تمنائوں کا محور بھی ختم ہو جائے گا‘
    انہوں نے وائسرائے کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ
’میں اس کڑے وقت میں ہندوستان کے ہر فرزند کو ایمپائر کے لیے کٹ مرنے پر راضی کرنا چاہتا ہوں‘
    لیکن گجرات میں فوجی بھرتی کی یہ مہم بری طرح ناکام ہوئی۔ ﴿9﴾ اسی دوران وہ کانگریس میں شامل ہو گئے اور کانگریس کے توسط سے پورے ملک میں اپنے رابطوں کو وسعت دینے لگے۔ گوکھلے اور تلک ختم ہو چکے تھے‘ گاندھی نے نہ صرف اس خلا کو پُر کیا بلکہ اپنے حلقۂ اثر کو بڑی تیزی سے بڑھایا۔
    برطانوی سامراجی دیمک نے ہندوستان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کردیا تھا۔ وہ ملک جیسے سونے کی چڑیا کہا گیا تھا‘ سامراج کی ہوس‘ بھوک اور خودغرضی کے باعث دنیا کا سب سے غریب ملک بن چکا تھا۔ اب یہ تیس کروڑ غلاموں اور بھکاریوں کا دیس تھا‘ لیکن استحصال اور ظلم سے تنگ آئے ہوئے عوام اس غیر ملکی راج کو چیلنج کرناچاہتے تھے۔ قحط‘ مہنگائی اور بیروزگاری کے اژدہے شہر‘ شہر اور گائوں ‘ گائوں پھنکار رہے تھے۔ ان حالات نے محنت کشوں‘ کسانوں‘ نوجوانوں اور طالب علموں کو شہر کے پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ متحد کردیا تھا۔ عبداللہ ملک لکھتے ہیں کہ ۔
    ’اس زمانے میں ہندوستان بھر میں دیہی زندگی کی بربادی کا نقشہ بڑا اندوہناک ہے. کوئی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ نچلے درمیانے طبقے کے مسلمانوں‘ دیہات کے کسانوں‘ گھریلو دستکاری کے پیشے سے متعلق لوگوں نے ہزارہا میل دور کی خلافتِ عثمانیہ کی بقا کے لیے جو جیل جانا منظور کیا تھا‘ تو وہ صرف خلافتِ عثمانیہ کی بقا کے لیے نہ تھا۔ بلکہ وہ تو انگریز اوراس کی چیرہ دستیوں کے خلاف احتجاج تھا. اس پسِ منظر میں پنجاب میں فوجی بھرتی‘ گھریلو دست کاری کی تباہی‘ زرعی بحران اور اس پر ساہوکاروں کی اندھیرنگری‘ سب نے مل کر خلافت اور کانگریس کی عدم تعاون کی تحریک کا قوام تیار کیا. نچلے درمیانے طبقے کے مختلف عناصر نے کھلم کھلاانگریز کے خلاف محاذ قائم کیا۔ کبھی اس نے ڈنڈا فوج بنائی اور کبھی اس نے ریل کی پٹڑی اکھاڑی اور کبھی انگریز کے بینک لوٹنے سے بھی گریز نہ کیا۔ اس کے مقابلے میں بڑے زمین دار‘ بڑے بیرسٹر اور شہری معززین نے انگریز سے صلح اور آشتی کی راہ اختیار کی۔
    1919کی ابتدا سے کالے قانون رولٹ بل کے خلاف احتجاجی جلسے ہورہے تھے۔ گاندھی نے ان مسائل کے حل کے لیے اپنا اہنسا یا عدم تشدد کا فلسفہ پیش کیا۔جس کے مطابق ہتھیاروں کی طاقت کا مقابلہ اخلاقی برتری کی طاقت سے کرنے کا نظریہ پیش کیا گیا۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی گولیوں کا مقابلہ ہندوستان کی روحانی طاقت سے کیا جائے۔ گاندھی نے بڑی مشکل سے برطانیہ نواز کانگریس کو تحریکِ سول نافرمانی یا ستیہ گرہ میں شرکت کے لیے آمادہ کیا۔ ستیہ گرہ کی اس تحریک کو کانگریس سے الگ رکھنے کے لیے ایک ستیہ گرہ سبھا بنائی گئی‘ تاکہ لوگ انفرادی طور پر فیصلہ کر کے اس میں شامل ہو جائیں۔ ملک بھر میں 6/اپریل 1919کو ہڑتال اور جلسے کر کے برطانیہ کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔ عوام نے بڑی بہادری سے سرکاری تشدد کا سامناکیا۔ کئی مقامات پر پولیس کی فائرنگ اور پھر پنجاب کے قتل عام کے بعد کانگریس نے 21/جولائی 1919کو رولٹ بل کے خلاف تحریک معطل کردی۔ دسمبر 1919 میں کانگریس کا سالانہ اجلاس امرتسر میں ہوا۔ علی برادران بھی رہا ہوتے ہی سیدھے کانگریس کے اجلاس میں شریک ہونے امرتسر پہنچے۔ اسی دوران امرتسر میں خلافت کمیٹی اور مسلم لیگ کے اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ خلافت کمیٹی نے ہجرت اور جہاد کے راستوںکے برخلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بعض علمائ نے ہند کو دارالحرب قرار دے کر افغانستان ہجرت کرنے کے فتوے دیے۔ ہزاروں غریب ہندوستانی مسلمان جب ہجرت کر کے افغانستان پہنچے تو انہیں افغان حکام نے اپنے علاقے میں گھسنے تک نہ دیا۔
    حکومتِ برطانیہ نے دسمبر میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 نافذ کیا۔ اس کے تحت اسمبلی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا۔ محمد علی جوہر کی قیادت میں خلافت کمیٹی کا ایک وفد برطانوی حکومت سے مذاکرات کرنے 1920 میں انگلستان گیا‘ لیکن ناکام واپس آیا۔ آخرکار گاندھی اور ان کے ہم خیال کانگریس کی پالیسی کوبدلنے میں کامیاب ہوئے۔ کانگریس نے دسمبر 1920 میں ناگپور کے اجلاس میں سول نافرمانی کی تحریک کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ سی آر داس اور لالہ لاجپت رائے بھی اس کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو گئے‘ لیکن محمد علی جناح نے اس کی مخالفت کی اور کانگریس سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ کانگریس کے اجلاس میں غیر ملکی مال‘ سرکاری عدالتوں اور سرکاری ملازمتوں کے بائیکاٹ کرنے‘ مالیہ اور ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کرنے اورسرکاری خطابات واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ خلافت کمیٹی اور کانگریس نے متحد ہوکر جدوجہد شروع کی۔
    کانگریس کی قیادت نے سول نافرمانی کی تحریک میں شرکت کا فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا تھا۔ ہند کے برطانیہ نواز سرمایہ دار طبقے نے جنگ کے دوران زبردست منافع کمایا تھا۔ برطانوی سرکار نے انہیں عام جنگی ضروریات کی اشیائ اور دیگر روزمرہ کے استعمال کی چیزیں تیار کرنے کی اجازت دی تھی۔ جنگ کی وجہ سے مجبوراً یہ اجازت دی گئی تھی۔ جنگی ضروریات کے پیشِ نظر ملک بھر میں نئی سڑکوں کے جال بچھائے گئے اور ریلوے کے نظام کو وسعت دی گئی۔ کولکتہ‘ بمبئی‘ احمد آباد اور دیگر شہروں میں بے شمار نئے کارخانے قائم ہوئے‘ خصوصاً سوتی کپڑے کے۔ اس کے علاوہ بہار میں ٹاٹا کے لوہے کے کارخانے نے تیزی سے ترقی کی تھی۔ اس عمل نے ہند میں صنعتی سرمایہ دار اور صنتی مزدور طبقے کو جنم دیا تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد برطانوی سرکار نے ہندوستانی سرمایہ داروں کی رعایتیں ختم کردیں اور انگلستان کے کارخانوں کا تیار شدہ سستا مال دوبارہ ہندوستان کی منڈیوں میں پھیلایا گیا۔بے شمار کارخانے بند ہو گئے اور سینکڑوں مزدوروں کی چھانٹی ہوئی۔ یہ دیسی سرمایہ دار طبقہ نہ صرف کانگریس میں شامل تھا بلکہ بڑا اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے گاندھی اس طبقے کی اُمنگوں کے ترجمان بن گئے تھے۔یہ سرمایہ دار طبقہ اپنی تجارتی رعایتیں دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سرکار پر دبائو ڈالنے کے لیے اسے عوامی طاقت کی ضرورت تھی۔ملک میں پھیلی ہوئی مہنگائی‘ بے روزگاری اور غربت کے باعث کسان‘ مزدور اور متوسط طبقے کے لوگ مضطرب و بے چین تھے۔ ان کے اس غم و غصے کا کانگریس کے سرمایہ دار اور بیرسٹر طبقے نے پورا فائدہ اٹھایا۔ کانگریس کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے گئے‘ ممبر شپ فیس چار آنے کردی گئی‘ پہلی بار عام لوگ کانگریس کے رکن بنے۔ خلافت کمیٹی اور کانگریس کی رہنمائی میں سول نافرمانی کی تحریک پورے ہندوستان میں زورو شور سے چلنے لگی۔
......
تحریک سودیشی پہ مجھے وجد ہے اکبر
کیا خوب یہ نغمہ ہے چھڑا دیس کی دُھن میں
.....

دُھن دیس کی تھی جس میں گاتاتھا اک دہاتی
 بسکٹ سے ہے ملائم پوری ہو یا چپاتی
                            اکبر الہٰ آبادی
    برطانیہ کے بے رحمانہ معاشی استحصال‘ جنگ کی تباہی‘ ترکی اور عرب ممالک پر انگریز کے جارحانہ حملے‘ جلیان والا باغ میں قتلِ عام اور ہند میں برطانوی افسروں اور پولیس کی بربریت نے عوام میں انتہائی جوش و خروش پیدا کردیا تھا۔ دوسری جانب امیر سیاست دان عوام کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ اگر انہوں نے اس جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عدم تشدد کا راستہ اپنایا تو آخرکار وہ اپنی اخلاقی قوت سے انگریز کا ظلم ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ تحریک غیر ملکی حملہ آور کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ایک مضبوط کڑی بن سکتی تھی۔ لیکن اس تحریک کے رہنمائوں کے سامنے کوئی طویل المعیاد پروگرام نہیں تھا‘ نہ انہوں نے عوام کی جدوجہد کی صلاحیت کو اس نقطۂ نظر سے منظم کیا تھا۔ دکھوں کی ماری ہندوستانی جنتا اس نئی قسم کی جدوجہد کے راستے پر چلنے لگی۔ لاکھوں کی تعداد میں ہندو‘ مسلمان اور سکھ اس تحریک میں شامل ہوئے۔ برطانوی کپڑے کا بائیکاٹ کیا گیا اور کھادی قوم پرستی کا نشان بنی۔ پورے ہند میں ہزاروں طالب علموں نے سرکاری اور مشنری تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا‘ وکیلوں نے وکالت ترک کی‘ سرکاری اور پولیس اہل کار بھی نوکریاں چھوڑنے لگے۔ پولیس لاٹھی چارج کرتی‘ جلسے اور مظاہرے توڑتی‘ لیکن اس کے باوجود ہزاروں لوگ بڑی جرائت سے گرفتاری پیش کیا کرتے تھے۔ جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھر گئی تھیں۔ حسرت موہانی کہتے ہیں کہ ۔
’1921کا وہ دور تھا جب کہ ملک قانون شکنی کے لیے بالکل تیار تھا۔ ہندومسلم متحد ہورہے تھے اور تحریک عدم تعاون شہروں اور قصبوں سے گزر کر دور دراز کے دیہاتوں تک پہنچ چکی تھی‘۔
    محمد علی جوہر کے زیرصدارت 9,8 اور 10 /جولائی 1921کو خلافت کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی اور اس میں برطانوی پالیسی کی مخالفت میں کئی قراردادیں منظور کی گئیں۔ اس کے فوراً بعد علی بردران‘ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور کئی دوسرے رہنما گرفتار کر لیے گئے۔ 26/ستمبر 1921 کو علی برادران پر مشہور مقدمۂ بغاوت خالق دینا ہال کراچی میں شروع ہوا۔ اسی دوران ابوالکلام آزاد ‘ ظفر علی خان‘ موتی لال نہرو‘ لاجپت رائے اور جواہر لال نہرو وغیرہ سب گرفتار کرلیے گئے۔ آزاد پر نومبر1921میں مقدمۂ بغاوت چلایا گیا۔ انہوں نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا‘ لیکن آخر میں وہ بیان دیا جو قولِ فیصل کے نام سے مشہورہے۔ گاندھی نے جنوبی ہند میں 21 /ستمبر 1921کو غریب کسانوں کی طرح مختصر لباس پہننا شروع کیا اور اپنے آپ کو عوام جیسا بنانے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے دوران جب برطانیہ کاپرنس آف ویلز نومبر 1921 کو ممبئی پہنچا تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر انگریزفوج اور پولیس کی فائرنگ سے 53ہندوستانی اپنے ہی وطن کی سرزمین پر قتل کردیئے گئے۔
    کانگریس کا سالانہ اجلاس جب 1921میں احمد آباد میں منعقد ہوا تو حسرت موہانی نے نوآبادیاتی درجے کے بجائے ہندوستان کی مکمل آزادی کی تجویز پیش کی‘ جس سے کانگریس کے تضادات کھل کرسامنے آگۓ۔حسرت نے کانگریس کے کھلے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ۔
    ’ہم اس وقت تک آزادی حاصل نہیں کرسکتے‘ جب تک اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حوصلہ اپنے اندر نہ پیدا کرلیں۔ ہمیں تشدد کا جواب تشدد سے دینا چاہیے۔ پولیس ہو یا فوج ہمیں اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔ انگریز اگر ہمارے سوآدمیوں کو ہلاک کریں گے تو غیر مسلح ہونے کے باوجود ہم بھی دس انگریزوں کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے سو آدمیوں کی ہلاکت کو قربانی سمجھ کر اور زیادہ جوش وخروش سے میدان میں اُتریں گے اور وہ اپنے دس آدمیوں کی ہلاکت کو قتل تصور کریں گے اور سراسیمہ ہو جائیں گے۔ آزادی بڑی سے بڑی قیمت مانگتی ہے اور ہم یہ قربانی دینے کا تہیہ کرچکے ہیں‘ ہم توپ کا جواب تفنگ سے دیں گے اور اس وقت تک میدان نہیں چھوڑیں گے‘ جب تک انگریز اس ملک سے رخصت نہ ہو جائیں‘ ۔
     گاندھی نے اس تجویز کو بڑی غیر ذمہ داری کا اظہار قرار دے کر اس کی سخت مخالفت کی اور اسے مسترد کروا دیا۔ گاندھی نے کہا کہ حسرت کی مکمل آزادی کی تجویز ہمیں اس سمندر میں لے جارہی ہے‘ جس کی گہرائی کا ہمیں اندازہ نہیں۔
    اس تقریر کے کچھ دن بعد حسرت بغاوت کے جرم میں گرفتار کرلیے گئے اور انہیں پانچ سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ اسی لیے تو حسرت نے کہا تھا کہ
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کبھی خدمتِ انگریز نہ کرتے
....
قوت کو جو پوچھو تو یہ ہوتی ہے ہمیشہ
اقوام میں افراد کے ایثار پہ موقوف
....
جسے کہتے ہیں اہنسا اک اصولِ خودکشی تھا
عمل اس پہ کوئی کرتا نہ کبھی عوام کرتے
    تحریکِ سول نافرمانی ہندوستان کے طول و عرض میں تیزی سے پھیل گئی تھی۔ اس کی شدت نے برطانوی سرکار کو خوف زدہ کردیا تھا ۔ کانگریس کے ساہوکاروں‘ سرمایہ داروں اور بیرسٹروں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہندوستانی عوام میں انگریزی راج کے خلاف اس قدر غم وغصہ ہے۔ عوام کے جوش و خروش نے انہیں بھی ڈرا دیا تھا۔ اسی لیے گاندھی نے ایک عوامی جلسے میں کہا تھا کہ لوگوں کو ستیہ گرہ کا مشورہ دے کر انہوں نے ’ہمالیہ برابر بھول کی ہے‘۔ اس امیر طبقے نے برطانوی راج کی وجہ سے یہ دولت کمائی تھی‘ وہ تو برطانیہ کے احسان مند تھے اور اس کی سرپرستی اور معاونت چاہتے تھے۔ ان کی جدوجہد کا مقصد تو فقط رعایتوں کا حصول تھا۔ گاندھی اسی امیر طبقے سے انتہائی قریب تھے۔ وہ اس تحریک سے فرار کی راہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ انہوں نے 1921 میں تحریک سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے سوراج سے بو آنے لگی ہے‘۔ ﴿13﴾
    سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہو کر گائوں کے کسان‘ زرعی مزدور اور بے روزگار دست کار بھی بڑھتے ہوئے ٹیکسوں ‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ ہر صوبے کی قومی جدوجہد میں علاقائی مطالبات بھی شامل ہو گئے تھے۔ حیدرآباد دکن اور صوبہ متحدہ میں کسان تحریکیں منظم ہونے لگیں۔ جنوبی ہند کے علاقے مالابار کے موپلہ کسان بھی ٹیکسوں کی زیادتی اور بڑے زمین داروں کے مظالم کے خلاف اگست 1921 سے احتجاج کرنے لگے۔ بڑے زمین داروں اور پولیس نے جب کسانوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی تو کسانوں نے بڑی جرائت سے مزاحمت کی۔ زبردست تصادم ہوا۔ اس علاقے میں غریب موپلہ کسان مسلمان تھے اور بڑے زمین دار ہندو۔ اس تضاد کا انگریز سرکار نے پورا فائدہ اٹھایا۔ کسانوں کو کچلنے کے لیے فوج بھیجی گئی۔ فوج کے ظلم نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہ مزاحمت پورے علاقے میں پھیل گئی۔ کہیں ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی گئیں اور کہیں ریلوے اسٹیشن جلا دیا گیا۔ کہیں ظالم زمین داروں اور ان کے کارندوں سے لڑائی لڑی گئی اور کہیں جم کر انگریز فوج کا مقابلہ کیا گیا۔ اس لڑائی میں ایک انگریز افسر بھی مارا گیا۔
    غیر ملکی حملہ آور سرکار نے انہیں کچلنے کے لیے غلام گورکھا سپاہی‘ گڑھ والی فوج اور برما سے ان فوجیوں کو طلب کیا جو مسلمان نہیں تھے اور جنہیں پہاڑوں اور جنگلوں میں لڑائی کا خوب تجربہ تھا۔ اس غلام ہندوستانی فوج نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ جنوری 1922کو دشمن انگریز کی سرسری فوجی عدالت کے حکم سے بائس موپلہ کسان رہنمائوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ ہزاروں موپلہ کسان زخمی ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ 100 موپلہ کسانوں کو مال گاڑی کے ایک بند ڈبے میں مدراس کے انتہائی گرم موسم میں روانہ کیا گیا۔ ان میں سے 66موپلہ کسان دم گھٹنے سے مر گئے۔ گوری سرکار کے اخلاقی قوانین کے مطابق کالے ہندوستانیوں کو کسی بھی طرح قتل کیا جاسکتا تھا۔ سخت سنسر نافذ کر کے اس کارروائی کو کافی عرصے تک چھپایا گیا۔ جب موپلہ کسانوں کی تحریک مکمل طور پر کچل دی گئی تو غیر ملکی حملہ آور نے اسے ایک الگ رنگ میں پیش کیا۔ خود سرکار نے اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر خوب پبلیسٹی کی۔ اس مہم میں تمام سرکاری اخبارات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ ظاہر کیا گیا کہ بے چارے ہندوزمین دار مسلمان کسانوں کے ظلم کا شکار ہوئے اور اس کا انتقام لینے کے لیے ہندو فوج نے بے چارے مسلمان کسانوں پر تشدد کیا۔ برطانوی سرکار سول نافرمانی کی راج دشمن تحریک چلانے پر ہندوستان کو کڑی سزا دینا چاہتی تھی۔ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانا ہندوستانی سیاست میں انگریز کا سب سے کامیاب اور موثر حربہ ثابت ہوا تھا۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں موپلہ کسانوں کی مذمت میں ایک قرار داد پیش کی گئی تو حسرت موہانی اور کچھ ارکان نے اس کی سخت مخالفت کی‘ لیکن گاندھی اور ان کے ہم نوائوں نے موپلہ کسانوں کے خلاف یہ قرارداد پاس کردی۔
    گاندھی سول نافرمانی کی تحریک سے بیزاری کا اظہار کئی بار کرچکے تھے۔ 17/نومبر 1921کو کچھ معمولی جھگڑے ہوئے تو گاندھی نے صوبہ گجرات کے ایک چھوٹے سے شہر بردولی میں ٹیکس ادا نہ کرنے کی ایک تحریک میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔ اس دوران عوام کی نگاہوں سے دور ہندوستانی بڑے سرمایہ دار اور برطانوی سرکار کے درمیان چند مراعات دینے پر سمجھوتہ ہوچکا تھا۔ اس لیے سول نافرمانی کی تحریک کو ختم کرنا ضروری تھا۔ اس تحریک کے سب پُرجوش رہنما ملک کی مختلف جیلوں میں سزا کاٹ رہے تھے لیکن گاندھی کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے گاندھی کو وسیع اختیارات دے دیے تھے۔ وہ قدم بہ قدم پیچھے ہٹ کر تحریک کو ختم کردینا چاہتے تھے۔ اتنے وسیع و عریض ملک میں اور اتنی پُرجوش تحریک میں نت نئے ہنگامے جنم لیتے تھے۔4/فروری 1922کو گورکھ پور کے قریب چوراچوری کے گائوں میں پولیس والوں نے غیر مسلح مظاہرین کا پہلے مذاق اڑایا اور پھر ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی‘ کئی مظاہرین مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ اس پر مشتعل ہجوم نے تھانے کو جلا دیا۔ عوام پر فائرنگ کر کے پولیس والے اس تھانے میں چھپ گئے تھے۔ کئی پولیس والے بھی جل کر مر گئے۔ اس واقعہ سے فائدہ اٹھا کر اور دوسرے رہنمائوں سے مشورہ کیے بغیر گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریک کو اچانک ختم کردینے کا اعلان کردیا۔ کئی اسیر رہنما ناراض ہو کر جیلوں میں احتجاج کرتے رہے‘ لیکن گاندھی نے ایک نہ سنی۔ برطانوی سرکار‘ سرمایہ دار‘ اور جاگیردار طبقے نے سکھ کا سانس لیا۔ اب کئی دہائیوں تک وہ خطرہ ٹل گیا‘ جس کا تصور بھی سوہانِ روح تھا۔ کیونکہ جب کوئی بڑی عوامی تحریک ایسی سیاسی خودکشی کرتی ہے تو پھر ایک طویل عرصے تک کسی نئی تحریک کا پنپنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گاندھی کا یہی طرزِ سیاست بڑے سرمایہ داروں اور ساہوکاروں کو پسند آگیا تھا۔ اسی لیے ہندوستان کے طاقتور سرمایہ دار پریس نے انہیں مہاتما بنا دیا تھا‘ ایسا مہاتما جو سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہو۔
    ہندوستان بھر میں عوام نے گاندھی کے اس بزدلانہ فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ کئی علاقوں میں تحریک جاری رہی۔ ہزاروں سیاسی قیدی جیلوں میں سخت سزائیں کاٹ رہے تھے۔ ہزاروں طالب علم جنہوں نے سرکاری اور مشنر ی تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا تھا‘ انہیں دوبارہ داخلہ نہیں مل سکا تھا۔ وہ لوگ‘ جنہوں نے سرکاری اور پولیس کی ملازمتیں چھوڑی تھیں‘ ان کے ذریعۂ معاش کا خیال رکھنا کسی سرمایہ دار کا فرض نہیں تھا۔ ملک انتہائی مایوسی کے اندھیرے میں ڈوب گیا۔ گاندھی کا فلسفۂ عدم تشدد برطانوی سامراج کے لیے فلسفۂ رحمت ثابت ہوا۔ سول نافرمانی کی تحریک ختم کردی گئی تھی۔ اب کسی گرفتاری کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ لیکن گاندھی کو گرفتار کر کے 10/مارچ1922 کو بغاوت کے جرم میں چھ سال کی سزا دی گئی تاکہ ان کی سیاسی افادیت قائم رہے۔ لیکن سزا پوری ہونے سے پہلے ہی انہیں 1924میں رہا کردیا گیا۔1857کی جنگِ آزادی کے بعد ‘ غیر ملکی حملہ آور کے خلاف یہ پہلی عوامی تحریک تھی جس میں بلاامتیاز مذہب و ملّت ہر طبقے کے ہندوستانی شریک ہوئے۔ یہ تحریک آزادی کی عظیم جدوجہد میں تبدیل ہونے کی تمام صلاحیتیں رکھتی تھی‘ لیکن اسے ہندوستانی سرمایہ دار طبقے نے خودتباہ کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’کانگریس کی ممبر شپ جس تیزی سے بڑھی تھی‘ اسی تیزی سے گری۔ یہ دس لاکھ سے گھٹ کر دس ہزار رہ گئی‘۔ ﴿15﴾ گاندھی نے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور عوام کو بہلانے کے لیے آشرم بنانے‘ چرخا کاتنے اور تعلیم پھیلانے کے پُرامن اخلاقی و روحانی کاموں میں مصروف ہو گئے۔ اسی لیے تو حسرت نے کہا تھا کہ
گاندھی کی طرح بیٹھ کر کیوں کاتیں چرخہ
لینن کی طرح دیں گے نہ دنیا کو ہلاہم
    ہندوستان کا یہ بے مثال عوامی اتحاد مایوسی و ناامیدی کے اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔ برطانوی سرکار‘ اس کی دیسی پولیس اور راج کے وفاداروں نے مل کر نفرت کی آگ بھڑکائی‘ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع کروایا گیا۔ اب انگریز کی چھائونیاں جلنے کی بجائے غریب ہندوستانیوں کی جھونپڑیاں جلنے لگیں۔ یہی اہنسا کے فلسفے کا مخفی مقصد اور منطقی نتیجہ تھا۔ اس دور کے ہندوستان میں بڑی جان لیوا اداسی تھی۔ شہر شہر اور گائوں گائوں اس گہرے دکھ اور ذلت کے سائے تھے۔ ملک کا نوجوان اور طالب علم اسی یاس اور بے حسی کے ماحول میں پروان چڑھا تھا۔ مادرِوطن کے شیدائی اور اپنے ہم وطنوں کے دکھ پر تڑپ اٹھنے والے‘ آزادی و خودمختاری کے لیے نئی جہتوں اور نئے راستوں کی جستجو کررہے تھے ۔ یہی وہ تیس کروڑ غلاموں کا دیس ہندوستا ن تھا‘ جہاں بھگت سنگھ اور اس کے نوجوان ساتھیوں نے ہوش سنبھالا اور اس کا گہرا اثر قبول کیا۔

Punjab Atrocities

مظالم پنجاب
میں نے امرتسر میں اک دن اپنے خواجہ سے کہا
پیٹ کے بل رینگ لیجیے بندہ پرور آپ بھی
ناک سے کچھ دن زمیں پر کھینچتے رہیئے لکیر
پھیرئے کو نچی سفیدی کی بدن پر آپ بھی
پھر یہ کہئے مارشل لا حشر تک قائم رہے
ورنہ ہوں گے منکر جنرل ادوائر آپ بھی
                            ظفر علی خاں

    جنرل ڈائر نے پنجاب کے گورنر او۔ڈوائر سے فخریہ کہا تھا کہ اس نے پنجاب کو بچا لیا ہے اور گورنر نے ایک تارمیں ان اقدامات کی تعریف کی تھی۔ برطانیہ کے مقرر کردہ ہنٹرکمیشن نے ان کارروائیوں کو جائز قرار دیا‘ لیکن جنرل ڈائرکو بغیر پینشن کے ملازمت سے علیحدہ کردیا گیا۔ ہند میں انگریزی کلچر کا اتنا شاندار مظاہرہ پیش کرنے پر ہندوستان میں مقیم انگریزوں نے بیس ہزار پائونڈ ﴿اس زمانے کے﴾ جمع کر کے جنرل ڈائر کو بطور نذرانہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ اسے ایک جڑائو تلوار بھی تحفے میں پیش کی گئی تھی جس پر پنجاب کا نجات دہندہ لکھا ہوا تھا۔ پنجاب میں ان مظالم کے سرپرست اعلیٰ جنرل او ڈوائر کو بھلایا نہیں گیا تھا۔ ایک اکیس سال کے پنجابی نوجوان اودھم سنگھ نے انگریز سے انتقام لینے کا عہد کیا تھا۔ اس نے اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد رکھا اور وہ اس سفاک قاتل کا پیچھا کرتا رہا۔ اس نے 13/مارچ 1942کو صرف ایک انگلش گولی سے جنرل اوڈوائر کو ختم کردیا۔ ﴿8﴾
    جلیان والا باغ کے قتل عام نے خوابیدہ و شکست خوردہ ہندوستان پر تازیا نے کا کام کیا۔ اہل ہند کو بیوقوف بنانے کے جتنے جتن انگریز کی نوکر شاہی نے کیے تھے‘ وہ ایک ہی وار میں ختم ہو چکے تھے۔ جنرل ڈائر اور او۔ڈوائر کی پالیسی اس عہد کی سب سے بڑی سچائی تھی۔ بقول محمد علی جوہر ڈائر کے جسم میں سامراج کی روح تھی۔ برطانیہ نے جس صوبے میں فوجی بھرتی کی تھی‘ جو انگریز کو خام مال فراہم کرنے کی ایک بڑی منڈی تھا‘ جس بازوئے شمشیر زن کی مدد سے نئی نوآبادیات حاصل کی گئی تھیں اور دوسری قوموں کا خون بہایا گیا تھا۔ اسی کو ایسی سزا دی گئی تھی‘ جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔لیکن ان مظالم نے ہندوستان میں وہ جوش و ولولہ پیدا کیا جو منظم تحریکوں کی صورت اختیار کرگیا۔ اب ہندوستان بھر میں ہر خیال‘ ہر سوچ اور ہر جذبے کا ایک ہی نام تھا. آزادی!
    کم سن بھگت سنگھ نے بھی اس فائرنگ کی خبر سنی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی ٹرین سے امرتسر پہنچا۔ اس نے جلیان والا باغ میں شہیدوں کے خون میں رچی ہوئی مٹی زمین سے اٹھا کر ماتھے پر لگائی اور تھوری سی مٹی ایک شیشی میں بھرلی. پھر وہ گھر واپس آگیا۔ انگریز کے ظلم کی سب سُنی ہوئی کہانیاں‘ کیا صرف خیالی کہانیاں تھیں؟ نہیں وہ سب وہیں تھیں‘ اسی جلیان والا باغ میں‘ اس کی آنکھوں کے سامنے‘ اسی سچ کی دنیا میں۔ اس کا جی چاہا تھا کہ وہ روئے لیکن کیا اس کے آنسو ‘ اس کے ہم وطنوں کو زندگی دے سکیں گے؟ کیا اس کے آنسو ان فائرنگ کرنے والے ہاتھوں کو جلا کر راکھ کردیں گے؟. اسے احساس ہوا کہ اب یہ دنیا بدل گئی ہے۔ یہ وہ دنیا نہیں‘ جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا‘ تتلیوں اور جگنوئوں کے پیچھے بھاگا کرتا تھا۔ کسی نے اس کی ہنسی‘ اس کی خوشیاں چھین لی تھیں۔ اس کے مظلوم ہم وطنوں کا لہو‘ اس کے لہو میں شامل ہوگیا تھا۔ وہ اب جہاں بھی جائے گا‘ اس کے ہم وطنوں کا خون ہمیشہ اس کا ہم سفر رہے گا۔ اس سے سوال کرتا رہے گا‘ تم مجھے بھولے تو نہیں؟. میں وہی خون ہوں جسے تم نے زمین سے اٹھایا تھا‘ ماتھے سے لگایا تھا۔ میرے خون کی گرمی تمہیں کبھی چین نہ لینے دے گی‘ کبھی بے خبر نہ ہونے دیگی۔ اس رات بھگت سنگھ‘ اس خون میں رچی مٹی کو ہاتھ میں لیے سوچتا رہا۔ اس نے عہد کیا کہ وہ اس مٹی کی‘ اس ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کردے گا۔

The Murder in Jilyan Wala Bagh on 13th April 1919


جلیان والا باغ میں قتلِ عام 13 /اپریل 1919

    برطانیہ نے دورانِ جنگ ہندوستانیوں کو یقین دلایا تھا کہ جنگ ختم ہوتے ہی نئی اصلاحات نافذ کی جائیں گی‘ لیکن ان توقعات کے برخلاف رولیٹ بل نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر کے اسے بغاوت قرار دیا گیا۔ اس قانون کے تحت سرکار کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں نظر بند کرسکتی تھی۔ عوام نے اسے کالے قانون کا نام دیا یعنی ناوکیل نا اپیل نادلیل۔ اس بل کی پورے ملک میں شدید مخالفت ہوئی اور محمد علی جناح‘ سرسنکرن نائر‘ مظہر الحق‘ پنڈت مالوی اور بی این شرما نے بطور احتجاج دلّی کی مرکزی اسمبلی سے استعفا دے دیا۔انڈین نیشنل کانگریس اور خلافت تحریک دونوں اس بل کی مخالت کررہی تھیں۔ ملک بھر میں اس کے خلاف جلسے ہورہے تھے۔ کانگریس‘ گاندھی کے مشورے پر اس کالے قانون کے خلاف ستیہ گرہ کرنے کے لیے رضا کار بھرتی کرنے لگی۔ 6/اپریل 1919 کو پورے ملک میں رولٹ بل کے خلاف ہڑتال ہوئی۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں اس کالے قانون کے خلاف جلسے ہورہے تھے۔ پولیس نے امرتسر کے دو مقبول رہنمائوں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو شہر بدر کردیا۔ اس کے خلاف امرتسر میں 10/اپریل کو جلوس نکالاگیا‘ جس پر گھڑ سوار فوجیوں نے گولی چلا دی۔ اس کی وجہ سے شہر میں فساد ہو گیا جس میں کئی ہندوستانی اور گورے مارے گئے۔ اس فائرنگ کے خلاف 13/اپریل 1919کو جلیان والا باغ میں ایک جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ سرکار نے جلسے پر پابندی عائد کردی‘ جس کا شہر میں لوگوں کو علم ہی نہیں تھا۔ عوام میں سرکاری تشدد کے خلاف اس قدرناراضگی تھی کہ وہ کوئی ایسا حکم ماننے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔
    جلیاں والا باغ ایک وسیع میدان تھا جو چاروں طرف رہائشی عمارتوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس دن بیساکھی کا میلہ بھی تھا اور عموماً کسان یہ تہوار منانے امرتسر آیا کرتے تھے۔ اس دن گائوں سے آئے ہوئے بہت سے کسان بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ امرتسر شہر کے ہزاروں لوگ جلسے میں شریک ہونے کے لیے آرہے تھے۔ ان میں ہندو‘ مسلمان اور سکھ سبھی شامل تھے۔ جلسہ شروع ہی ہوا تھا کہ جنرل ڈائر اور پچاس گورکھا سپاہی میدان میں داخل ہوئے۔ جنرل ڈائر تو مزید سپاہی اور توپیں لے کر آیا تھا‘ لیکن باغ کا دروازہ چھوٹا تھا‘ اس لیے انہیں باہر چھوڑنا پڑا تھا۔ اس میدان میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ تھا۔ سپاہی یہ راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔ اس وقت شام کے ساڑھے پانچ بجے تھے‘ آسمان صاف تھا‘ ہوا میں موگرے اور سرسوں کی خوشبورچی ہوئی تھی۔ غیر ملکی حملہ آور جنرل ڈائر نے بغیر وارننگ دیے نہتے شہریوں پر فائرنگ کرنے کا حکم دے دیا۔ آخر فائرنگ رُک گئی کیونکہ گولیاں ختم ہوچکی تھیں۔ ’منٹوں میں جلیان والا باغ خون میں نہا چکا تھا۔ چاروںطرف لاشیں پڑی تھیں۔ خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا‘۔ لاشیںاور زخمی رات بھر وہیں پڑے رہے۔ شہر ہتھیاروں سے لیس برطانوی فوج کے قبضے میں تھا۔ ہزاروں ہندوستانی قتل کردیے گئے تھے اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ ان مرنے والوں میں چند مہینوں کے بچوں سے لے کر بوڑھے تک تھے۔ ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ‘ سکھ بھی تھے اور عیسائی بھی۔ ان سب کا جرم کیا تھا؟ یہی کہ وہ غلام ہندوستانی تھے!
    ہند میں پیدا ہونے والے جنرل ڈائر کو ہندوستان اور ہندوستانیوں سے شدید نفرت تھی۔ اس نے فخریہ بیان دیاتھا کہ ’ایک بھی انگلش گولی ضائع نہیں ہوئی‘ جتنی گولیاں چلیں اتنے ہی ہندوستانی مارے گئے‘ ۔ انگریزی سرمایہ دارانہ کلچر نے پھر اپنا بھیانک روپ دکھایا تھا۔فائرنگ کی خبر پہلے امرتسر میں پھیلی اور پھر پورے پنجاب میں پھیل گئی۔ پنجاب کے گورنر جنرل او ڈوائر نے پنجاب میں سخت مارشل لا اور سنسر نافذ کردیا۔ اس قتلِ عام کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بڑے شرمناک مظالم ڈھائے گئے۔ امرتسر اور پنجاب میں برطانوی مظالم و دہشت گردی کی خبر جب ہندوستان میں عام ہوئی تو غصے ‘ نفرت اور احتجاج کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
    غیر ملکی حملہ آور دشمن نے بیسویں صدی کے ہندوستان میں ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ لکھی۔ جنرل ڈائر اور جنرل او ڈوائر کے حکم پر امرتسر میں لوگوں کو پیٹ کے بل چلوایا گیا۔ شہروں پر ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی اور مشین گنوں سے گولیاں برسائی گئیں۔ گجرانوالہ‘ لاہور‘ قصور‘ وزیرآباداور امرتسر وغیرہ میں چوکوں پر ٹکٹکیاں نصب کر کے لوگوں کو سرِعام کوڑے مارے گئے.لاہور کی شاہی مسجد میں گوروں نے سخت توہین آمیز فعل کیے اور پھر مسجدکو بندکردیا گیا. ہاتھ پائوں باندھ کر ہتھیلیوں پر انگارے رکھے گئے. کوڑے کھا کر بے ہوش ہو جانے والے بچوں کو ہوش میں لاکر پھر کوڑے مارے گئے. ہندوئوں اور مسلمانوں کو جوڑوں میں زنجیر سے باندھ دیا جاتا تھا تاکہ ان کے اتحاد کے انجام کو ظاہر کیا جائے. لوگوں کو پنجروں میں بند کر کے ان کی بے عزتی کرنے کے لیے اسے عوامی مقامات پر رکھا گیا۔ یہ ان وحشیانہ مظالم کی صرف چند مثالیں ہیں۔

Tehreek-e-Khilafat


تحریکِ خلافت
اعلانِ بیداری

اے ساکنانِ خطۂ ہندستاں! بڑھو !!
آگے نکل گئے ہیں بہت کارواں‘ بڑھو!
تانام ایشیا کا جہاں میں بلند ہو
کاندھے پہ رکھ کے قوم کا اونچا نشاں بڑھو!
بیٹھے ہو پائوں توڑ کے کیوں کنج غم میں تم؟
دیکھو ذرا نشیب و فرازِ جہاں‘ بڑھو!
ہم لوگ تم میں ہیں کہ جرسِ کارواں میں ہے
چلّا رہاہے طوطی‘ ہندوستاں بڑھو!
یہ نظم اخبار عام لاہور میں 10/مارچ 1883 کو چھپی تھی

 ہندکی ذلت و غلامی اور محنت کش طبقے کی غربت و زبوں حالی نے تمام محبِ عناصر کو مضطرب کردیا تھا۔ کہیں گوکھلے اور ظفر علی خاں کی احتجاجی آواز بلند ہوتی تھی تو کہیں تِلک اور حسرت موہانی کی آواز اہلِ ہند کو غلامی کے خلاف للکارتی تھی اور کہیں بنگال کے جرائت مند نوجوان عوام پر تشددکرنے والے سرکاری حکام کو گولی کا نشانہ بناتے تھے۔ دوسری جانب ہند کے مغرب میں آباد ایشیائی ممالک میں نئے طوفان جنم لے رہے تھے۔ اٹلی نے 1911 میں طرابلس پر حملہ کیا تو اس کے خلاف ہند کا پڑھا لکھا مسلمان احتجاج کرنے لگا۔ زارِ روس نے کبھی ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار قرار دیا تھا۔ اس کی یہ اصطلاح یورپ کے طاقتور سامراجیوں کو بڑی پسند آئی تھی۔ وہ ترکی کی نوآبادیات میں پھیلی ہوئی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر اس مردِ بیمار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہتے تھے۔ سازشوں اور نفرتوں کے جال پھلانے میں انگریز قوم کی فنکاری مسلّمہ ہے۔ انگریز کی سازشوں کے باعث 1912میں بلقان کی ریاستوں نے ترکی کے خلاف جنگ شروع کردی۔ غلامی کے مایوس کُن دور میں ہند کے مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ ترکی ایک آزادملک ہے اور ہند کے مغرب میں تمام ممالک یورپ کی جابرانہ حاکمیت سے آزادہیں۔ گوکہ خود عرب ممالک ترکی کے تسلط سے آزاد ہونا چاہتے تھے‘ لیکن ہندوستان کے دکھ کچھ اور تھے اور اس کے تقاضے بھی مختلف تھے۔

    محمد علی جوہر اور شوکت علی اپنے ہم خیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ محمد علی جوہر نے دلی سے کامریڈ نکالا اور ابوالکلام آزاد نے کولکتہ سے الہلال جاری کیا۔ دونوں کا مقصد اپنے ملک کے مسائل پر اظہارِ خیال کرنا اور اپنے ہم وطنوں میں بیداری پیدا کرکے انہیں جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔ جلد ہی حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر انصاری بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ اسی دور میں ایک میڈیکل مشن برائے ترکی قائم ہوا‘ جس میں علی گڑھ کے طلبہ بھی شامل تھے۔ اسی دوران مسلم لیگ 1906 میں ڈھاکا میں قائم ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمان امیر طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ اس کا فوری مقصد ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمان تعلقہ داروں‘ جاگیرداروں‘ امیر تاجروں اور وکیلوں کو برطانیہ کی قائم کردہ اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دلانا تھا۔ ان کے قائد انگریزوں کے وفادار سرسلطان محمد شاہ آغا تھے۔ محمد علی جناح1913 میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ اس زمانے میں مسلمان سیاست دان عموماً کانگریس اور مسلم لیگ دونوں پارٹیوں میں شامل ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں پارٹیوں کے ارکان کی اکثریت برطانوی سرکار کی وفادار تھی۔
    یورپی سامراجیوں کی پہلی جنگِ عظیم 1914 میں شروع ہو گئی تھی۔ انگریز ترکی سے لے کر ایران تک ہر ملک پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہاتھا۔ زبردستی کی فوجی بھرتی اور جنگ کے بھاری اخراجات نے ہندوستان میں بے چینی کو جنم دیا تھا۔ اب مسلمانوں کے علاوہ ہندوئوں کو بھی اس بات کاشدید احساس تھا کہ اگر ہند کے مغرب میں واقع تمام ممالک پر انگریز سامراج مسلط ہوگیا تو ہندوستان کی آزادی کا حصول اور کٹھن ہو جائے گا۔ علی برادران مسلسل ترکی کی حمایت کررہے تھے۔ برطانوی سرکار نے کامریڈ کی اشاعت پر پابندی عائد کردی اور اپریل 1915 میں دونوں کو گرفتار کرلیا۔ جولائی 1916میں ابوالکلام آزاد بھی گرفتار کرلیے گئے۔ 1918 میں سامراجیوں کی جنگ ختم ہوئی۔دنیا بھر کی محکوم و مظلوم قومیں سامراجی دہشت گردی اور لوٹ کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔ چین میں سن یات سین کی قوم پرست پارٹی نے قدیم بادشاہت ہمیشہ کے لیے ختم کر کے جمہوری حکومت قائم کرلی تھی۔ یورپ اور جنوبی امریکا میں سوشلسٹ تصورات مقبولیت حاصل کررہے تھے۔ روس میں زار کی جابرانہ بادشاہت دم توڑ چکی تھی اور دنیا میں مزدوروں کی پہلی سوشلسٹ ریاست قائم ہوئی تھی۔ نوآبادیات پر قبضے کی اس جنگ نے ہندوستانی عوام کو بڑے دکھ دیے تھے۔ دس لاکھ کے قریب ہندوستانی فوجیوں کو اس جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ ہند کے زرعی‘ مالی اور معدنی وسائل کوبری طرح برباد کیا گیا تھا۔ جنگ انگریز کے مفادات کے لیے لڑی گئی تھی لیکن جنگی اخراجات کے نام پر محکوم ہندوستان پر بھاری قرضوں کا بوجھ لاددیا گیا تھا۔ اس صورتِ حال کے باوجود ملک میں کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں تھی جو عوام کو آزادی کی جدوجہدکے لیے منظم کرتی۔ عرب وعراق اردن و فلسطین سب پر تاجِ برطانیہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ انگریز کے وفادار اور وطن کے غدار ہر جگہ تخت پر بٹھا دیے گئے تھے۔ عربی بھیس میں لارنس آف اریبیا‘ برطانوی سامراجی جھوٹ اور دھوکے کی منہ بولتی تصویر تھا۔ ہند میں پھیلی ہوئی سنگین سیاسی بے چینی‘ شورش اور بغاوت کی نئی راہوں کی جستجو کر رہی تھی۔





Nov 17, 2009

Ghadar Party

غدر پارٹی

    ’کتے اور ہندستانی اندر نہیں آسکتے‘ کے نوٹس لگا کر ہند میں راج کرنے والے ہندوستانیوں سے جس نفرت اور حقارت کااظہار کرتے تھے۔ اس نے وطن سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں غیر ملکی غلامی کے خلاف بغاوت کا جذبہ پروان چڑھایا تھا۔ گورا شاہی سے نجات حاصل کرنے کے لیے نئی راہیں تلاش کی جارہی تھیں۔ بنگال میں قوم پرستوں نے انگریز کے خلاف ہتھیار اٹھالیے تھے۔ ان حالات میں ہند کی سرزمین سے بہت دور شمالی امریکا میں غدر پارٹی قائم کی گئی۔ روٹی اور روزگار کی تلاش میں سینکڑوں محنت کش جن میں سے اکثر کا تعلق پنجاب سے تھا‘ بحری جہازوں میں کام کرتے ہوئے کینیڈا اور سان فرانسیسکو پہنچ گئے تھے۔ شمالی امریکہ میں افریقہ سے گرفتار کر کے لائے گئے‘ نیگرو نسل کے افراد کے ساتھ بدترین نسلی امتیاز برتا جاتا تھا۔ ہندوستانیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روارکھا گیا۔ہندوستانیوں کو یہ احساس ہوا کہ چونکہ وہ ایک غلام ملک کے شہری ہیں‘ اس لیے ان کے تحفظ کے لیے حکومت ہند کوئی قدم نہیں اٹھاتی ہے۔ انہیں ہوٹلوں‘ بسوں‘ ریلوں‘ اسکولوں اور اسپتالوں میں امریکی گوروں کے نسلی کلچر کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان محنت کشوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی یونینز قائم کیں۔ 13/ اپریل 1912کو ہندوستانیوں کی ایک متحدہ تنظیم‘ یونین آف دی انڈین ورکرز آف پیسفیک کوسٹ قائم کی گئی۔ انہوں نے ایک اُردو ہفت روزہ‘غدر‘ نکالا جو بعدمیں ہندی‘ پنجابی ‘ گجراتی بنگالی اور مراٹھی میں بھی چھپنے لگا۔ غدر اخبار میں ہندوستانی عوام کو درپیش مسائل پر مضامین لکھے جاتے تھے۔ غدر اخبار اپنے آپ کو انگریزی راج کا دشمن کہتا تھا۔ اسی اخبار کے نام کی وجہ سے ان کی تنظیم غدر پارٹی کہلانے لگی۔ وہ غدر اخبار کو بحری جہازوں کے ذریعہ ہندوستان بھیجنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں یورپ اور امریکہ کے مزدوروں میں سوشلسٹ نظریات مقبولیت حاصل کررہے تھے۔ ہندوستان میں بھی غربت‘ بے روزگاری‘ قحط اور بیماری کا راج تھا۔ غدر پارٹی کے کارکنوں کوبھی ان نئے خیالات میں ہندوستان کے مسائل کا حل نظر آیا۔
    ان ہی دنوں ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سینگاپور میں آباد ایک ہندوستانی بابا گردیت سنگھ نے ایک جاپانی بحری جہاز کاما ۔گاٹا ۔مارو کرایے پر حاصل کیا۔ یہ جہاز سینگاپور اور آس پاس کے علاقے میں آباد ہندوستانیوں کو لے کر وینکوور کینیڈا پہنچا‘ لیکن وہاں کی انگریز سرکار نے ہندوستانیوں کے کینیڈا میں داخلے پر بابندی عائد کردی۔ وہ دو ہفتے تک حکام سے مذاکرات کرتے رہے‘ جو آخر کارناکام ہو گئے۔ جہازواپس روانہ ہوا‘ لیکن سینگاپور اور ہانگ کانگ کی بندرگاہوں پر برطانوی حکام نے اس جہاز کو داخل نہیں ہونے دیا۔ اس لیے اس علاقے میں رہنے والے تمام مسافر اپنے گھر نہ جاسکے۔ یہ جہاز 29/ ستمبر 1914 کو کولکتہ پہنچا۔ اسی دوران برطانوی خفیہ پولیس نے اس کے مسافروں کو خطرناک انقلابی قرار دے کر ‘ ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کولکتہ میں جہاز کے مسافروں کو حکم دیا گیا کہ وہ فوراً ٹرین میں سوار ہو جائیں جو انہیں پنجاب لے جائے گی۔ جہاز کے مسافر کینیڈا‘ سینگاپور اور ہانگ کانگ کے برطانوی حکام کے سلوک کی وجہ سے پہلے ہی بہت غصے میں تھے۔ ان ناراض مسافروں نے گردیت سنگھ کی قیادت میں برطانوی سرکار کے فیصلے کے خلاف کولکتہ کی سڑکوں پر جلوس نکالا۔ انگریز افسروں کے حکم سے جلوس پر فائرنگ کی گئی۔ ہندوستان کی زمین پر غیر ملکی انگریز نے 18 ہندوستانی مسافروں کو قتل کردیا اور بہت سے مسافر زخمی ہوئے۔ باقی مسافروں کو پولیس نے گرفتار کر کے ٹرین میں پنجاب روانہ کردیا لیکن گردیت سنگھ اور کچھ دوسرے مسافر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
    اس واقعے سے شمالی امریکہ میں آباد ہندوستانیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ یورپ کے سامراجیوں کے درمیان پہلی جنگِ عظیم جاری تھی۔ برطانیہ کئی محاذوں پر الجھا ہوا تھا۔ جنگ عموماً برسرِاقتدار طبقے کی تباہی کا باعث بھی بنتی ہے اور اکثر اہم سیاسی و معاشی تبدیلیاں بڑی جنگوں کے بعد جنم لیتی ہیں۔ غدر پارٹی کا خیال تھا کہ یہ برطانوی راج کے خلاف بغاوت کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ امریکہ میں آباد ہندوستانیوں کو اس تحریک میں شامل کرنے کے لیے جلسے منعقد کیے جانے لگے‘ جس میں لالہ ہردیال‘ مولوی برکت اللہ اور بھگوان داس وغیرہ تقریریں کرتے تھے۔ غدر پارٹی کے اراکین نے پنجاب کے مختلف شہروں میں تعینات دیسی فوج میں شامل اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو خطوط لکھے اور اس بغاوت میں شریک ہونے کی اپیل کی‘ ان کے کئی خطوط پولیس نے پکڑ لیے۔ امریکہ سے غدر پارٹی کے اراکین دو جاپانی جہازوں تو شامارو اور مریلما۔ مارو کے ذریعے سینگاپور اور ہانگ کانگ میں ہندوستانی فوجیوں سے ملتے ہوئے ہند پہنچے۔ان میں نوجوان کرتار سنگھ سرابھابھی شامل تھا۔ کرتار سنگھ سرابھا 1896میں تحصیل لوھیانہ کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ جس زمانے میں اس نے میٹرک پاس کیا‘ اس کے گائوں کے کئی لوگ غدر پارٹی میں شامل ہوکر سان فرانسیسکو جارہے تھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ امریکا چلا گیا۔ وہاں وہ غدر پارٹی اور اس کے اخبار غدر میں کام کرنے لگا۔ وہ تقریباً دو سال بعد غدر پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ہندوستان واپس آیا۔ غدر پارٹی کے کارکنوں کا خیال تھا کہ انہیں لاہور‘امرتسر اور لائل پور میں عوامی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے برطانوی سرکار کے خلاف کئی خفیہ سیل قائم کیے اور وہ میرٹھ‘ الہٰ آباد‘ بنارس اور لکھنؤ میں ہندوستانی فوجیوں سے بھی ملے۔
    انہوں نے 21/فروری 1915کو ایک ساتھ کئی چھائونیوں میں بغاوت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ برطانوی خفیہ پولیس کا ایک مخبر کرپال سنگھ شمالی امریکا کی غدر پارٹی میں شامل ہوچکا تھا۔ اس لیے ابتدا سے برطانوی سرکار کو اس منصوبے کا علم تھا اور اس نے بغاوت کو سختی سے کچلنے کی تیاری کرلی تھی۔ اسی تاریخ کو بغاوت ہوئی لیکن ناکام بنا دی گئی۔ سینکڑوں لوگ گرفتار ہوئے۔ ان کے لیڈر راس بہاری اور کرتار سنگھ سرابھا فرار ہو گئے اور دوبارہ بغاوت کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ وہ سرگودھا چھائونی سے ایک میٹنگ کے دوران پکڑے گئے۔ برطانوی سرکار نے سرسری فوجی عدالت میں مقدمے چلائے اور اس تحریک میں حصہ لینے والوں کوسخت سزائیں دیں۔ 145 ہندوستانیوں کو پھانسی دی گئی‘ جن میں 62 فوجی تھے۔ کالے پانی کی سزا پانے والوں میں 190 فوجی تھے۔ انہیں ماندلے ﴿برما﴾ اور جزیرہ انڈمان کی جیلوں میں نظربند کردیا گیا‘ جہاں اکثر قیدی پولیس تشدد سے ہلاک کردیے جاتے تھے۔ برطانوی سامراج نے بڑی بے رحمی اور سفاکی سے اس تحریک کو کچل ڈالا۔ اس کا پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں پر گہرا اثر پڑا---پنجاب میں انگریز کی یہ بربریت کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں 1870-1860 کے دوران ایک سکھ کو کا تحریک منظم ہوئی تھی۔ یہ ایک مذہبی تنظیم تھی جو برطانوی راج کے بھی خلاف تھی۔ یہ 1872 تک مسلح بغاوت کی صورت اختیار کر گئی۔ برطانوی سرکار نے اسے نہایت سختی سے دبا دیا۔ 17 /جنوری 1872 کو ’کوکے آں داکلار‘ میں عوام کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہزاروں فوجیوں اور عام لوگوں کے سامنے 65 کوکائوں کو توپوں سے اڑا دیا گیا تھا۔ یہ برطانوی فاشسٹ سامراج کا انتقام تھا۔
    پنجاب کی برطانوی سرکار نے ’پہلے لاہور سازش کیس‘ کے تحت غدر پارٹی کے قوم پرستوں پر مقدمہ چلایا۔ کرتارسنگھ سرابھانے مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان میں کہا کہ اس کی پارٹی انگریز حکومت کوہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہتی ہے کیونکہ یہ سرکار تشدد اور ناانصافی پر قائم ہے۔ اس نے لندن میں پھانسی کی سزاپانے والے مدن لال دھینگڑا کا بیان دہرایا کہ
’جو ملک غیر ملکی سنگینوں کی نوک سے دبا ہوا ہے‘ وہ ہمیشہ جنگ کی حالت میں ہوتا ہے‘۔
    کرتارسنگھ سرابھا کو بیان بدلنے کا مشورہ دیا گیا‘ لیکن اس نے انکار کردیا۔ اسے 16/نومبر 1915 کو پھانسی دی گئی۔ اس وقت اس کی عمر 19 سال تھی۔ اس نے پھانسی پر لٹکائے جانے سے پہلے کہا تھا کہ
’میری آرزو صرف اتنی ہے کہ میرا ملک آزاد ہو جائے۔ میں نے جو کچھ بھی کیا‘ اس کا مقصد یہی تھا۔ میں نے کبھی کسی شخص‘ ملک‘ مذہب یا طبقے سے متعلق نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ میری صرف ایک تمنا ہے. آزادی۔‘
    یہ آسمان جیسی وسعت رکھنے والی جوانی کی آواز ہے‘ جو تنگ دلی‘ تنگ نظری اور اندیشوں سے بے نیاز ہوتی ہے۔ یہ تھا وہ کرتارسنگھ سرابھا اور اس کی غدر پارٹی جن کی بہادری اور قربانیوں کی کہانیاں سن کر بھگت سنگھ بڑا ہوا تھا۔