Nov 22, 2009

The initial history of Cuba

کیوبا کی ابتدائی تاریخ

     اسپین کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے والے کیوبا کے اراواک قبیلے کے سردار حاتوئے نے قبائلیوں کی تباہی کی بنیادی وجہ بیان کرنے سے پہلے ایک ٹوکری پر سے ڈھکن اٹھایا۔ وہ سونے سے بھری ہوئی تھی۔ پھر اس نے کہا کہ ’یہ ہے ان کالارڈ جس کی وہ خدمت اورپرستش کرتے ہیں. اسی کے لیے یہ ہم پر تشدد کررہے ہیں‘ اسی کے لیے انہوں نے ہمارے ماں باپ‘ ہمارے سب لوگوں اور ہمارے پڑوسیوں کو قتل کیا ہے۔‘
             ﴿ویسٹ اِنڈیز‘ فیلیپ شرلوک‘ ص۔16﴾


    صدیوں سے طاقت و دولت کی ہوس نے اس دنیا کی تاریخ لکھی ہے۔ اسی زر و زمین کی تلاش میں کولمبس اور اس کے ساتھی بحری قزاق 28 اکتوبر 1492 کو کیوبا پہنچے تھے‘ جس کے سر سبزو حسین ساحل نے انہیںحیرت زدہ کردیا تھا۔ اس وقت شہر اور بندرگاہیں تعمیر نہیں ہوئی تھیں۔ اس کا بیشتر علاقہ ہرے بھرے جنگلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اجنبی زمین اور اجنبی انسانوں کے حقوق سے بے پرواہ ہسپانوی سپاہیوں نے کیوبا کو شاہِ اسپین کی نوآبادی قرار دے دیا۔ اس وقت یہاں قدیم اراواک قبیلے آباد تھے۔
     ابتدا میں اس جزیرے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ لیکن جب کولمبس کے بیٹے دیاگوکو اس علاقے کی ہسپانوی نوآبادیات کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس کے حکم سے 1511 میں کیوبا پر باقاعدہ قبضہ کرکے سرکاری دفاتر قائم کیے گئے اور ہسپانوی یہاں آباد ہونے لگے۔ میکسیکو پر اسپین کے تسلط کے بعد چاندی سے لدے ہوئے ہسپانوی جہاز اسپین کی بندرگاہ کا دیز جاتے ہوئے راستے میں کیوبا پر رکا کرتے تھے۔ اسی تجارتی ضرورت کے پیشِ نظر حوانا کی بندرگاہ کو ترقی دی گئی۔
    ابتدا میں ہسپانوی تاجروں نے کیوبا میں جانوروں کے رانچ قائم کیے اور نمک لگا گوشت اسپین بھیجنے لگے۔ جب یورپ میں شکر کی مانگ میں اضافہ ہوا تو یہاں گنے کے پلانٹیشنز قائم کیے گئے جس کے لیے بڑی لاپرواہی سے گھنے جنگلوں کو کاٹ دیا گیا۔ ہسپانوی جنگجو حملہ آور کیوبا کی سرزمین پر محنت و مشقت کرنے نہیں آئے تھے۔ وہ تو اپنے ہم وطن امرائ اور جاگیرداروں کی طرح راج کرنے کے خواہش مند تھے۔ اب اس چھوٹے سے جزیرے میں آباد انسانوں کو ان کی عیش و عشرت کی تمنائوں کی تکمیل کے لیے اپنا لہودینا تھا۔
    انہوں نے مقامی اراواک قبائلیوں کو زبردستی رانچ اور گنے کے پلانٹیشنز میں کام کرنے کے لیے مجبور کیا۔ یہ مچھیرے اور شکاری قبائل نہ تو جانور پالنے اور کھیتی باڑی کے ہنر سے واقف تھے اور نہ ہی اس کام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہیں کیمپوں میں قید کردیا گیا اوراسلحہ کے بل بوتے پر ان سے پلانٹیشنز میں کام لیا جانے لگا۔ ان حالات میں کچھ قبائلی گروہوں نے غلامی کی ذلت برداشت کرلی لیکن دوسرے قبائلیوں نے مزاحمت کی اور ساحلی علاقے چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں چلے گئے۔ اس کرۂ ارض پرہزاروں سالوں سے حملوں کی یہی بے رحم تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ ہر نیا حملہ آور نئی زمین پر قبضہ کرتے ہی مقامی باشندوں کو اپنا غلام تصور کرنے لگتا ہے اور پھر جدید اسلحہ اور فوجی طاقت کی مدد سے انہیں‘ ان کی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

No comments:

Post a Comment