Nov 22, 2009

African Ghulam

افریقی غلام
    اراواک قبائل غلامی‘ بھوک‘ بدترین مظالم اور یورپ سے لائی گئی بیماریوں چیچک‘ پلیگ اور ٹی بی کی وجہ سے تیزی سے ہلاک ہونے لگے‘ کیونکہ ان یورپی بیماریوں کے خلاف ان میں فطری قوت مدافعت بالکل نہیں تھی۔ لیبر کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے 1512 سے کیوبا میں افریقی غلام لائے گئے۔ افریقہ سے اچھے صحت مند نوجوان خریدے جاتے تھے‘ جن میں اکثریت مردوں کی ہوتی تھی ۔ ان افریقی غلاموں کو جن جہازوں میں لایا جاتا تھا‘ وہ اس قدر گندے ہوتے تھے کہ 20 سے 30 فیصد نوجوان بحرِ اوقیانوس پار کرنے کے دوران ہی بیمار ہوکر مرجاتے تھے اور بقیہ غلام بندرگاہوں کی مارکیٹوں میں فروخت کر دیے جاتے تھے۔
    افریقی غلاموں کی منفعت بخش تجارت اسپین‘ پرتگال‘ برطانیہ‘ فرانس اور ہالینڈ کے تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔ عموماً ان افریقی غلاموں کو شکر‘ کافی اور تمباکو کے پلانٹیشنز اور فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے خریدا جاتا تھا۔ ہسپانوی مالکان کے ظلم و تشدد‘ کام کے طویل اوقات‘ بھوک‘ بیماری اور مایوسی کی وجہ سے وہ بھی جلد ہی موت کا شکار ہو جاتے تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مستقل نئے غلام منڈی سے خریدے جاتے تھے۔ غلاموں کا یہ کاروبار کئی سو سال تک جاری رہا۔ اس سے کیوبا میں افریقیوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
    کیوبا میں محنت و مشقت کے سب کام افریقی غلاموں سے کروائے جاتے تھے لیکن پلانٹیشنز اور فیکٹریوں کے مالک ‘ سپروائزر‘ سرکاری ملازم اور تجارتی اداروں کے افسر یورپ کے گورے ہوا کرتے تھے۔ اس صورتِ حال کے باوجود ابتدا سے ہی ہسپانوی‘ افریقی اور اراواک قبائلی ایک دوسرے سے شادیاں کیا کرتے تھے۔ اسپین سے آنے والوں میں عورتوں کی تعداد بہت کم تھی۔ رومن کیتھولک پادری اراواک قبائلیوں اور افریقی غلاموں کو زبردستی عیسائی بنالیتے تھے۔ اس لیے ہسپانوی مرد اپنی ہم مذہب افریقی اور اراواک عورتوں سے شادیاں کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مستیزو﴿ملی جلی نسل﴾ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ کیوبا میں قانوناً غلام مقررہ رقم ادا کر کے آزاد بھی ہوسکتا تھا۔ انیسویں صدی تک کئی ہزار غلاموں نے اس طرح آزادی حاصل کرلی تھی۔
    جب حیٹی اور سانتو دومینگو کے فرانسیسی جزیرے بغاوت کر کے آزاد ہوئے تو یورپی تاجروں نے اپنا سرمایہ کیوبا منتقل کردیا۔ 1792 سے 1821 کے دوران صرف حوانا کی بندرگاہ پر2,50,000 غلام فروخت کے لیے لائے گئے۔ کیوبا میں غلاموں کی تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ یہ افریقی غلام بدترین مظالم کا شکار تھے۔ اسپین کے تسلط کی ابتدا سے ہی یہاں رومن کیتھولک چرچ موجود تھا لیکن اندھے مذہبی پیشوائوں کو امیروں اور جابروں کا ظلم نظر ہی نہیں آتا۔ کیوبا میں افریقی غلام ایک بڑی قوت بن گئے تھے۔ انہوں نے غلامی کے خلاف مسلسل آواز بلند کی۔ ان کے علاوہ آزاد افریقی غلام‘ مستیزو اور پڑھا لکھا قوم پرست ہسپانوی طبقہ بھی غلامی کی پُرزور مخالفت کرنے لگا۔ 1810‘ 1812 اور 1844 میں غلاموں کی بغاوتیں ہوئیں‘ گو کہ ان بغاوتوں کو کچل دیا گیا لیکن باغیوں کو کیوبا میں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی ۔

No comments:

Post a Comment