Nov 17, 2009

Political and Financial Background of India

ہند کا سیاسی و معاشی پسِ منظر

1498میں یورپی تاجروں کا ایک مسلح بحری بیڑا جنوبی ہند میں کالی کٹ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔ تاجروں کو تلاش تھی گرم مصالحوں کی‘ شکر‘ نمک‘ ریشمی کپڑے اور اس زروجواہر کی‘ جس کی کہانیاں سن کر وہ اجنبی زمین پر وارد ہوئے تھے۔ دن مہینوں‘ سالوں اور صدیوں میں بدل گئے۔ دلّی اور آگرہ کے محلوں میں براجمان‘ طاقت و دولت کے قلعوں میں محصور‘ بدلتے ہوئے ملکی و غیر ملکی حالات سے بے خبر‘ بادشاہ اور ان کے نائب‘ مسلح یورپی تاجروں کو ہندوستان کے ساحلوں پر تجارتی کوٹھیوں کے قیام اور مسلح دستوں کی تعیناتی کے اجازت نامے عطا فرماتے رہے۔ ایک دن بادشاہ سلامت کا نام و نشان مٹ گیا‘ لیکن سرزمین ہند کے دریائوں‘ جھیلوں‘ چشموں اور تالابوں میں غلامی و مجبوری و بے بسی کا زہر گُھل گیا۔
1857میں ہند نے بدیسی برطانوی سامراج سے جنگ لڑی۔ جس آزادی کی راہ میں بنگال کے سراج الدولہ اور میسور کے ٹیپو سلطان اور ان کے ساتھی شہید ہوئے تھے۔ اسی راہ میں جھانسی کی رانی‘ بخت خاں‘ نانا رائو‘ عظیم اللہ اور ہزاروں ہندوستانیوں نے اپنی جانیں نچھاور کردیں۔ پرانا شاہی نظام نئے طاقتور صنعتی سرمایہ داری نظام سے شکست کھا گیا۔ دشمن انگریز کی نگرانی میں دیسی غلام فوج‘ پولیس اور نوکر شاہی قائم کی گئی۔ ہند پر فوجی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے عوام کی زمین ضبط کر کے فوجی چھائونیوں کے جال بچھائے گئے۔ انگریز نسل پرست سامراج نے فوجی طاقت کا بے رحمی سے استعمال کر کے اپنی یک طرفہ منافع بخش تجارت کو لوٹ اور درندگی کی منزل تک پہنچا دیا۔
1900 میں سونار بنگال نے‘ جو انگریز کے تسلط سے پہلے ہند کے سب سے امیر صوبوں میں شمار کیا جاتا تھا اور جو سب سے پہلے انگریز کے پنجۂ استبداد میں گرفتار ہوا تھا‘ اسی زخم خوردہ بنگال نے ہندوستان میں سب سے پہلے برطانوی تسلط کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا۔ دوسری جانب پنج آب ---پانچ دریائوں کی وہ سرزمین جو صدیوں غیر ملکی حملہ آوروں کے قدموں تلے روندی گئی۔ جس کی زمین پر محبت اور بھگتی کے گیت بھی گائے گئے اور نفرتوں کے زخم بھی لگائے گئے۔ جہاں بدیسی حاکم نے ظلم کا ہرگُر آزما کر کرایے کے فوجی بھرتی کیے‘ جنہیں چین و ملائیشیا‘ مکہ و مدینہ‘ عراق و ترکی اور مصر و سوڈان میں برطانوی سامراجیت کے استحکام اور شان و شوکت کے لیے جنگوں کا ایندھن بنایا گیا۔ اسی سرزمین پنجاب کے بھگت سنگھ جیسے بیٹوں نے اپنا لہو دے کر آزادی اور انقلاب کی راہوں پر روشنی بکھیر دی۔
بھگت سنگھ کے صوبے پنجاب کے اپنے مخصوص مسائل تھے۔ پنجاب‘ برطانوی نوآبادی ہندوستان کا ایک سرحدی صوبہ تھا۔ اس میں صوبہ سرحد سے لے کر پنجاب اور دلی تک کا علاقہ شامل تھا۔ 1849 میں اس علاقے پر قبضے کے بعد انگریز نے یہاں مسلسل فوجی حکومت قائم رکھی۔ پنجاب میں صرف دریائوں کے اردگرد کی زمین اور وہ علاقے جہاں بارش ہوتی تھی‘ بہت زرخیز تھے اور اسی علاقے میں خوب گھنی آبادی تھی۔ پنجاب کا بیشتر علاقہ ویران اور صحرائی تھا۔ یہ انتہائی پسماندہ علاقہ تھا اور زیادہ تر علاقے میں خانہ بدوش آباد تھے۔ انگریز کے آنے سے پہلے پنجاب کے گائوں میں ایک خود کفیل دیہی نظام رائج تھا۔ زمین گائوں یا قبیلے کی مشترکہ ملکیت تصور کی جاتی تھی۔ گائوں کے کسان صدیوں سے بادشاہ کا عائد کردہ مالیہ اجتماعی طور سے ادا کیا کرتے تھے۔ بادشاہ کا مقرر کردہ جاگیردار اس مالیے میں سے ایک حصہ رکھ کر باقی بادشاہ کو بھیج دیتا تھا۔ وہ زمین اس کی ذاتی ملکیت نہیں تھی اور وہ اسے فروخت نہیں کرسکتا تھا۔ زمین کی خرید وفروخت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ کاشت کار مالیہ فصل و اناج کی صورت میں ادا کرتے تھے لیکن بدیسی برطانوی سرکا ر نے کسانوں سے انفرادی طور پر مالیہ وصول کرنا شروع کیا اور کیش کی صورت میں مالیے کی ادائیگی لازمی قرار دی۔ اس نئی تبدیل شدہ صورتِ حال میں مالیے کی ادائیگی کے لیے کسان کو ساہوکار سے قرض لینا پڑتا تھا اور ساہوکار سود کی رقم تیزی سے بڑھا کر رہن پر رکھی گئی زمین پر قبضہ کرلیتا تھا۔ ہزاروں ان پڑھ پریشان حال کسان برطانوی کورٹ کے چکر کاٹنے لگے۔ ساہوکار کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے بڑا زمیندار بن گیا اور ہزاروں کسان بے زمین زرعی مزدور بننے پر مجبور ہو گئے۔ اس نئے استحصالی نظام سے برطانوی سرکار کے علاوہ دیسی ساہوکاروں‘ وکیلوں اور پٹواریوں کو فائدہ پہنچا۔
پنجاب کی برطانوی سرکار کے سامنے تین اہم مقاصد تھے۔
1۔ اس صوبے کو اس طرح ترقی دی جائے کہ یہ علاقہ برطانوی صنعتوں کے لیے خام مال فراہم کرسکے۔
2۔ اس صوبے کو برطانیہ کے تیار کردہ مال کی منڈی بنا دیا جائے۔
3۔ اس صوبے کو فوجی بھرتی کا سب سے اہم مرکز قرار دیا جائے۔
چنانچہ جلد ہی پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں برطانوی تیار شدہ مال کی آمد نے ہزاروں کاریگروں کو بے روزگار کردیا۔ اسی پالیسی کے تحت پنجاب میں آبپاشی کا وسیع نظام قائم کیا گیا۔ 1873 سے راوی‘ چناب ‘ جہلم وغیرہ سے نہریں نکالی جاتی رہیں اور 1901 تک اسے لگاتار وسعت دی گئی۔ 5.5 ملین ایکڑ زمین کو 20,000 میل لمبی نہروں کے ذریعے پانی فراہم کیا گیا اور ایک وسیع صحرائی زمین زیر کاشت لائی گئی۔ لائل پور‘ منٹگمری‘ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ‘ جھنگ‘ شاہ پور‘ گجرات اور ملتان کے ضلعوں کی وسیع زمین پر وسطی پنجاب کے کسانوں کو آباد کیا گیا۔ اس زمین پر ایکسپورٹ کی جانے والی فصلیں تیل کے بیج‘ روئی اور گندم اگائی جانے لگیں۔ وہ جنگجو جنہوں نے 1857کی جنگِ آزادی میں انگریز کی خاطر دلّی‘ اودھ اور بنگال تک جاکر اپنے ہم وطنوں کو قتل کیا تھا‘ انہیں بڑی بڑی جاگیریں عطا کی گئیں اور پنجاب کی زمین پر سامراج کے وفاداروں کا ایک انتہائی طاقتور طبقہ پیدا کیا گیا ۔ وائسرائے لارڈکرزن نے شمال مغربی سرحدی علاقے کو 1901میں پنجاب سے الگ کردیا اور اسے ایک کمشنر کی تحویل میں دے دیا گیا۔
ان حالات میں بھگت سنگھ کے چاچا اجیت سنگھ نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ وہ ضلع جالندھر کے کھٹکار کلاں گائوں میں پیدا ہوا اور بعد میں ان کا خاندان ضلع لائل پور کے بنگاگائوں میں آباد ہوگیا۔ اس نے اسکول اور کالج کی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ اسی زمانے میں پنجاب کی سرکار نے ایک طرف نہری ٹیکس میں اضافہ کیا اور ساتھ ہی نئے نہری نظام سے سیراب ہونے والی زمین کے بارے میں ایک نیا قانون بنایا‘ جس کے تحت اس تمام زمین کو سرکار کی ملکیت قرار دے کر‘ کسانوں کو زمین کرایے پر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ کسان اس زمین کو نہ کسی دوسرے شخص کو منتقل کرسکتا تھا اور نہ اس سلسلے میں کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جاسکتا تھا‘ بلکہ محکمۂ آبپاشی کے سرکاری افسر کو کل اختیارات دے دیے گئے۔ اس قانون نے صوبۂ پنجاب میں سخت بے چینی پیدا کردی تھی۔ اجیت سنگھ نے 1907میں کسانوں کو بڑھتے ہوئے زرعی ٹیکسوں کے خلاف منظم کرنا شروع کیا۔ اس نے پنجاب کے مختلف شہروں اور گائوں میں جلسے کیے اور عوام کو آمادہ کیا کہ وہ سرکار کے ظالمانہ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیں۔ ان جلسوں میں کسانوں نے انگوٹھے لگا کر عہد کیا کہ وہ ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ اجیت سنگھ کی اس تحریک کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے کسانوں کے احتجاج کو ایک سیاسی جدوجہد میں تبدیل کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی سیاست میں وہ پہلا شخص تھا جس نے سوشلسٹ تصورات کسانوں اور مزدوروں میں پھیلائے۔ اس نے کسانوں سے کہا کہ اس ملک کے اصل حاکم وہ خود ہیں‘ راجے‘ افسر اور پولیس تو کسانوں کے نوکر چاکر ہیں۔ اس نے ان عناصرکی شدید مخالفت کی جو عوام کی سیاسی و معاشی غلامی کے لیے ذمہ دار تھے۔ اس نے عوامی جلسوں میں ایک نیا نعرہ دیا ’ہندوستان ہمارا ہے‘۔
پنجاب کے گورنر دینزل ۔ابی اسٹون نے اپنی رپورٹ میں پنجاب کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کی ذمہ داری اجیت سنگھ اور اس کے ساتھیوں پر ڈالی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ کسان طبقہ اجیت سنگھ کی بات سنتا ہے اور اس کے مشوروں پر عمل کرتا ہے۔ اجیت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف راولپنڈی میں بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ کسانوں کی اس جدوجہد میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے طالب علم‘ مزدور اور کسان شامل تھے۔ یہ بات برطانوی سرکار کو سخت ناگوار گزری تھی کیونکہ ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ سامراجی حکمتِ عملی کا بنیادی اصول تھا۔ انگریز نے ہندوستان میں ہمیشہ مذہبی‘ قبائلی اور نسلی امتیازات کو ہوا دی اور ہند کو غیر ملکی حملہ آور کے خلاف لڑائی میں کمزور کیا۔ پنجاب فوجی بھرتی کا سب سے بڑا مرکز تھا اور گائوں کے کسانوں میں برطانیہ کے خلاف بڑھتے ہوئے غم و غصے کے باعث سرکار کویہ اندیشہ تھا کہ کہیں فوجی سپاہی بھی سرکار کے خلاف بغاوت نہ کردیں‘ کیونکہ اجیت سنگھ کے جلسوں میں سینکڑوں فوجی بھی شریک ہونے لگے تھے۔ 1907 کا سال اس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا کہ اس سال 1857 کی جنگِ آزادی کے پچاس سال ہو چکے تھے اور برطانوی سرکار کسی نئی بغاوت کے تصور سے بھی خوف زدہ تھی۔ اجیت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جدوجہد کو‘ برطانوی حکام اس صوبے میں پھیلنے والی سب سے اہم راج مخالف تحریک سمجھتے تھے۔برطانیہ نے ہندوستان پر فقط جبرو تشدد سے ہی نہیں بلکہ بڑی ہوشیاری اور سیاسی دور اندیشی سے حکومت کی تھی‘ جس کے بغیر ہزاروں میل دور سے تیس کروڑ غلاموں پر حکومت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے دو اہم قدم اٹھائے گئے۔ وہ کالونیز ایکٹ جس کی وجہ سے کسانوں میں مخالفت کا طوفان اٹھا تھا‘اسے نافذ نہیں کیا گیا اور ساتھ ہی انگریز سرکار کی سرپرستی میں آریا سماج‘ گردوارہ کمیٹی اور انجمنِ اسلامیہ جیسی تنظیموں کو پنجاب بھر میں آگے بڑھایاگیا۔ یہ سب تنظیمیں تاجِ برطانیہ کی وفاداری اور جاں نثاری کا دم بھرتی تھیں۔ دوسری جانب بغاوت کے جرم میں اجیت سنگھ کو برما کی ماندلے جیل میں نظر بند کردیا گیا اور پنجاب میں کئی قوم پرست اخبارات پر پابندی عائد کر کے مدیروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ کسانوں کی اس جدوجہد کے دوران برطانیہ نواز انڈین نیشنل کانگریس اجیت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی مخالفت کرتی رہی‘ لیکن عام کسانوں کا خیال تھا کہ کالونیز ایکٹ اسی جدوجہد کے باعث نافذ نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد اجیت سنگھ کو رہا کردیا گیا‘ لیکن جیسے ہی اس نے سیاسی سرگرمیاں شروع کیں‘ اسے پھر بغاوت کے الزام میں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ ایران کے راستے ہندوستان سے فرار ہو گیا‘ تاکہ غیر ممالک میں رہ کر اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے۔﴿4﴾
نئی نوآبادیات کے حصول کے لیے 1914میں یورپی سامراجیوں کی پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی۔ ہندوستان میں بھی کرایے کے فوجی بھرتی کیے جانے لگے۔ پنجاب فوجی بھرتی کا سب سے اہم مرکز قرار دیا گیا۔ پنجاب کے برطانوی گورنر او ڈوائر کے حکم سے کسانوں پر انتہائی شرمناک مظالم کیے گئے اور لاکھوں کسان نوجوانوں کو زبردستی گرفتار کرکے فوج میں بھرتی کیا گیا۔ عبداللہ ملک ’پنجاب کی سیاسی تحریکیں‘ میں لکھتے ہیں کہ
’اس فوجی بھرتی کے لیے پنجاب میں بسنے والوں کو جن مظالم کو برداشت کرنا پڑا‘ وہ ایک الم ناک داستان ہے۔ ڈاکٹر عاشق بٹالوی نے اپنی اہم کتاب ’اقبال کے آخری دو سال‘ میں اس دور کی چیرہ دستیوں پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ضلع کا ڈپٹی کمشنر افسرِ مال کے سر پر‘ افسرَ مال تحصیل دار کے سر پر اور تحصیل دار نمبر دار کے سر پر تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا تھا کہ جوانوں کی مطلوبہ تعداد‘ جہاں سے بن پڑے اور جس طرح ممکن ہو‘ مہیا کی جائے۔ نیتجہ یہ ہوتا تھا کہ پورے گائوں کو سرکاری اہل کار نرغے میںلے لیتے تھے اور ساری آبادی کو گھروں سے نکال کر قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ جس جوان کی طرف سرکار کی انگلی اٹھ جاتی تھی‘ اسے پابجولاں ضلع کے صدر مقام میں بھیج دیا جاتا تھا اور وہ رضا کارانہ طور پر بھرتی کیا ہوا رنگروٹ تصور ہوتا تھا۔ حکومت کے جابرانہ طرزِ عمل سے پنجاب میں بے شمار فساد ہوئے۔ دیہات کے باشندوں نے مشتعل ہو کر بھرتی کرنے والے افسروں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ بڑے بڑے بلوے ہونا شروع ہو گئے اور بعض جگہ گائوں کی پوری آبادی کو گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کردینا پڑا‘ عبداللہ ملک لکھتے ہیں کہ ’جبر و تشدد سے تنگ آئے ہوئے لوگ فساد پر آمادہ ہو گئے۔ جونہی خبر آڑتی کہ بھرتی کا افسر آرہا ہے۔ گائوں کے لوگ ڈر کے مارے گھروں اور کھیتوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے‘ کئی مرتبہ سرکاری افسر گھروں کو لوٹ لیتے اور فصلوں کو تباہ کردیتے تھے‘ ۔
یورپی سامراجیوں کی اس جنگ میں دس لاکھ غلام ہندوستانی فوجی جھونک دیے گئے تھے‘ جن میں اکثر کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بے شمار فوجی سپاہی یورپ کے محاذ پر خندقوں میں ہی سردی‘ بھوک‘ ہیضہ‘ پلیگ اور گولہ باری سے ہلاک ہو گئے تھے۔ ان غلام فوجیوں کو ترکی‘ عراق‘ فلسطین وغیرہ میں بھی برطانوی نسل پرستوں کی جنگ لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چار سال کی جبری فوجی بھرتی نے پنجاب کو ایک غذائی بحران سے دوچار کردیا تھا۔ کھیتوںمیں کام کرنے والے لاکھوں کسان جوان پرائی جنگ میں مرنے کے لیے بھیج دیئے گئے تھے۔ گائوں کی ویرانی نے پنجاب کی زراعت کو تباہ کردیا اور اسے زبردست غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود خودغرض غیر ملکی سرکار نے گندم اور چاول ایکسپورٹ کردیے۔ پنجاب سمیت ہندوستان بھر میں قحط پڑنے لگے۔ اس قحط و افلاس کے دوران وبائیں پھیلیں اور لاکھوں ہندوسانی ہیضہ‘ پلیگ اور انفلوئنزا سے ہلاک ہو گئے۔

No comments:

Post a Comment