انقلابی جدوجہد
اٹھ جاگ وطن دیا شیرا
گھر لٹیا فرنگیاں تیرا
ہندوستان میں سول نافرمانی کی تحریک کے دوران ہزاروں طالب علموں نے سرکاری تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا تھا‘ لیکن اس تحریک کے خاتمے کے بعد ان سرکاری اداروں نے طلبائ کو دوبارہ داخلہ دینے سے انکار کردیا۔ ان طلبائ کی مشکلات حل کرنے کے لیے کئی قومی تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ لاہور میں بھی قوم پرست عناصر نے نیشنل کالج قائم کیا۔ بھگت سنگھ نے اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اسی کالج میں بھگت سنگھ کی ملاقات سکھ دیو سے ہوئی۔ یہاں اسے پروفیسر جے چند ودھیا لنکار جیسے بلند پایہ تاریخ کے استادملے ۔ بھگت سنگھ نے 1922مئی میں نیشنل کالج سے انٹر کیا۔
اس دور کے ہندوستان کے سامنے بڑے کٹھن مسائل تھے‘ ان گنت سوالات تھے‘ سب سے اہم اور گمبھیر سوال تھا--- آزادی؟ مضطرب نوجوان طبقہ اکثر ان موضوعات پر بحث میں اُلجھا رہتا تھا۔ بھگت سنگھ کا حال ان سے مختلف نہیں تھا۔ وہ ان مسائل کے بارے میں سوچتا رہتا تھا‘ بے شمار سوالات اس کے ذہن میں اٹھتے تھے جن کا کوئی آسان دو ٹوک جواب نہیں تھا۔ اسے شدید احساس تھا کہ ان مسائل کو‘ علم حاصل کیے بغیر‘ کتابیں پڑھے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا اور اس تلاش‘ اس جستجو کا سفر اسے خودطے کرنا ہوگا۔ جب اس نے کتابیں پڑھنی شروع کیں تو علم کی ایک وسیع دنیا اس کے سامنے تھی‘ ایک بحرِ بے کراں تھا۔ وہ مسلسل پڑھتا رہتا تھا‘ اس کا بے چین ذہن‘اس کا جوشیلا مزاج‘ اس کے لہو میں رچے سوالوں کا جواب چاہتا تھا---کرتارسنگھ سرابھا کو پھانسی کی سزا‘ جلیان والا باغ کا قتلِ عام‘ ہندوستان کی غلامی کی زنجیر اور اہلِ ہند کی بدحالی--- وہ اتنا کچھ جاننا اور سمجھنا چاہتا تھا۔ سارے دن وہ لائبریری کی کتابوں میں گُم رہتا‘ فلسفہ ‘ تاریخ‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ ناول ‘ کہانی‘ شاعری‘وہ سب کچھ پڑھ لینا چاہتا تھا۔ یہ کتابیں اسے اپنے ان دوستوں کی طرح عزیز تھیں جو اسی کی طرح بے چین تھے اور اسی کی طرح ناانصافی کو مٹا دینے کی آرزو دل میں رکھتے تھے۔ یہ تڑپ اور یہ کتابیں‘ اسے انگلی پکڑے ان جانی پگڈنڈیوں پر لے جارہی تھیں۔ یہ کتابیں ایسے ہی لوگوں نے لکھی تھیں‘ جن کے حساس ذہن انسانی سماج کے دکھوں کو ختم کردینے کے لیے بے چین تھے۔ اس تڑپ کے بغیر کوئی جدوجہد‘ کوئی کوشش ممکن نہیں تھی۔ وطن کی چاہت کی طرح کتابوں سے عشق بھی بھگت سنگھ کے تن من میں سما چکا تھا۔ بچپن کی معصومیت اور بے فکری کی دہلیز کو پارکرجانے والا یہ لڑکا اب علم و انقلاب کی دشوار گزار راہوں کا مسافر تھا۔
اسی زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا‘ جس نے بھگت سنگھ کی زندگی کو بدل ڈالا۔ اس کے دادا‘ دادی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ بھائی بہنوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس کے پانچ چھوٹے بھائی بہن تھے۔ امرکور‘ سمتراکور‘ شکنتلا‘ کلبیر سنگھ اور کلتار سنگھ۔ اس کی دادی چاہتی تھیں کہ اس کی شادی کردی جائے۔ کشن سنگھ اپنی ماں سے بہت پیار کرتے تھے‘ ماں کی خوشی میں ان کی خوشی تھی۔ انہوں نے بھگت سنگھ کی رائے پوچھے بِنا اس کا رشتہ طے کردیا‘ لیکن ان کا بیٹا بھگت سنگھ تو کسی اور ہی عشق کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ اس نے بڑی حیرت سے والد کے نام ایک خط لکھا۔
’محترم والد صاحب!
یہ وقت شادی کا نہیں ہے‘ مجھے وطن پکار رہا ہے‘ میں نے عہد کیا ہے کہ تن من دھن سے ملک کی خدمت کروں گا اور پھر یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارا پورا خاندن وطن پرستوں سے بھرا پڑا ہے۔ میری پیدائش کے دو تین سال بعد 1910مئی میں چاچا سورن سنگھ کا جیل میں انتقال ہوگیا۔ چاچااجیت سنگھ بیرونِ ملک جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ آپ نے بھی جیل میں بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ میں صرف آپ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں اور اس لیے میں نے یہ حوصلہ کیا ہے۔ براہ کرم آپ مجھے شادی کے بندھن میں نہ باندھیں‘ بلکہ میرے حق میں دعا کریں کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکوں‘
اس کے والد انکار نہیں سن سکتے تھے‘ انہوں نے بھگت سنگھ کولکھا۔
’پیارے فرزند!
’ہم نے تمہاری شادی طے کردی ہے۔ ہم نے دلہن کو بھی دیکھ لیا ہے۔ ہمیں وہ اور اس کے والدین پسند ہیں۔ مجھے اور تمہیں بھی‘ تمہاری دادی کی خواہش کااحترام کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ میرا حکم سمجھو کہ شادی میں تم کوئی رکاوٹ نہیں ڈالو گے اور اس کے لیے خوشی خوشی تیار ہو جائو گے‘۔
بھگت سنگھ بہت رنجیدہ تھا۔ آخر اس کے والد‘ اس کے نقطۂ نظر کوسمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اس نے انہیں جواب میں لکھا ۔
’محترم والد صاحب!
’آپ کا خط پڑھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ آپ جیسا سچا محبِ وطن اور بہادر شخص بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے متاثر کیا جاسکتا ہے تو پھر ایک عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟ آپ دادی کی فکر کررہے ہیں لیکن یہ خیال نہیں کررہے کہ ہم 33 کروڑ افراد کی ماں--- مادرِ ہند کتنی تکلیف میں ہے۔ ہمیں اس کے لیے سب کچھ قربان کرنا ہوگا‘۔
بھگت سنگھ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے والدِ اب اس کی کسی دلیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ کاش اس کے والد اس کے نقطۂ نظر کو سمجھ سکتے اور خود اپنا فیصلہ تبدیل کرلیتے‘ وہ اپنے کسی عمل سے انہیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ وہ اپنے والد سے‘ ماں سے‘ سب گھر والوں سے بہت پیار کرتا تھا‘ لیکن اسے مجبوراً گھرچھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اس نے جانے سے پہلے اپنے والد کو ایک خط لکھا۔
’میں نے اپنی زندگی مادرِ وطن کی خدمت جیسے اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کردی ہے۔ اس لیے میرے لیے گھر اور دنیاوی خواہشوں کی تکمیل میں کوئی کشش نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میری زنّار پوشی کی رسم کے موقع پر باپوجی نے یہ اعلان کیا تھا کہ مجھے ملک کی خدمت کے لیے وقف کیا جارہاہے۔ میں صرف اس قول کو پورا کررہا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے‘۔
اس نے لاہور ریلوے اسٹیشن پر اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ
’اگر میری شادی غلام ہندوستان میں ہوئی تو میری دلہن صرف موت ہی ہوگی۔ میرا جنازہ ہی میری بارات ہوگا اور باراتی ہوں گے اس ملک کے شہید‘۔
بھگت سنگھ گھر اور کالج چھوڑکر کانپور چلا گیا۔ اس کم عمری میں بھی اسے اپنے آپ پر بڑا اعتماد تھا۔ یہی اعتماد‘ یہی قوتِ ارادی ہرمشکل مرحلے پر اس کی رہنمائی کرتی تھی۔ اس نے اپنے تاریخ کے پروفیسر سے علی گڑھ‘ آگرہ اور کانپور کے انقلابیوں کا ذکر سنا تھا۔ قیدی زندگی کے مصنف مشہورانقلابی سچندرناتھ سانیال نے اسے ایک تعارفی خط دیا تھا۔ اس نے ایک بڑا مشکل قدم اٹھایا تھا‘ لیکن وہ اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اس فیصلے پر قائم رہنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اسے اپنے ماں باپ سے بڑی محبت تھی لیکن مادرِ وطن سے چاہت کا رشتہ اور سرزمین ہندکی آزادی کاعہد ہر انفرادی رشتے ناتے سے بلند تر تھا۔ کانپور میں اس نے اپنا نام بلونت سنگھ رکھ لیا۔ یہاں اس کی ملاقات کئی انقلابیوں سے ہوئی اور جلدہی یہ ملاقاتیں دوستی میں بدل گئیں۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے مختلف ملازمتیں کیں۔ اس نے کالج ہوسٹل میں اپنے بنگالی انقلابی دوست باتوکیشوردت سے بنگالی سیکھی۔ قاضی نذر الالسلام کی مشہور نظم بدروہی ﴿باغی﴾ جو انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران 1921ئ میں لکھی تھی‘ ا ب بھی نوجوانوں میں بے حد مقبول تھی۔ بھگت سنگھ اور باتوکیشوردت اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اکثر یہ نظم گایا کرتے تھے ۔
جواں مرد کہہ دے میں ہوں سربلند
ہمالہ کی بھی چوٹیوں سے بلند
تباہی ہوں‘ دہشت ہوں‘ طوفان ہوں
سراپا ہلاکت کا سامان ہوں
کچل دینا ہر ایسے قانون کو
بہائے جو انصاف کے خون کو
میں صحرا کا ہوں جھلماتا سراب
میرا کارواں‘ اضطراب‘ اضطراب
﴿یہ ایک طویل نظم ہے اور اس کا ترجمہ اثر لکھنوی نے کیا ہے﴾۔
بھگت سنگھ کے دوست اجے کمار گھوش کا تعلق کانپور سے تھا۔ وہ 1951سے 1962تک ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ بھگت سنگھ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔
’یہ شاید 1923 کی بات ہے جب میں بھگت سنگھ سے پہلی بار ملا تھا۔ اس وقت میںپندرہ سال کاتھا اور وہ میراہی ہم عمر تھا۔ کانپور میں باتوکیشوردت نے مجھے اس سے ملوایا تھا۔ لمبا اور دُبلا‘ بوسیدہ سے کپڑے پہنے‘ بڑا خاموش سا جیسے عموماً گائوں کے لڑکے ہوتے ہیں‘ جن میں خود اعتمادی اور تیزی نہیں ہوتی۔ میںنے اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی اور جب وہ چلا گیا تو یہ بات میں نے دت سے بھی کہہ دی۔ کچھ دن بعدمیں پھر اس سے ملا۔ ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ یہ وہ دن تھے جب ہم کم سن لڑکوں کی طرح انقلاب کے خواب دیکھتے تھے۔ بس یوں لگتا تھا کہ انقلاب آنے ہی والاہے ‘ بس چند سالوں کی بات ہے۔ لیکن بھگت سنگھ کو اس بات پر ایسا اعتماد نہیں تھا۔ میں اس کے الفاظ بھول گیا ہوں‘ لیکن مجھے یاد ہے کہ اس نے کہا تھا کہ ملک میں بے حسی اور جمود طاری ہے‘ عوام کو بیدار کرنا مشکل ہے‘ ہمارے سامنے بھاری رکاوٹیں ہیں۔ اس کے بارے میں میرے پہلے تاثر کی تصدیق ہو گئی۔ پھر ہم پچھلی انقلابی کوششوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ جب 1915-16 کے شہیدوں کا ذکر ہوا اور پہلے لاہور سازش کیس اور خاص طور سے کرتار سنگھ سرابھاکا نام آیا تو بھگت سنگھ کا لہجہ اور انداز ہی بدل گیا۔ ہم دونوں میں سے کوئی بھی اس سے نہیں ملا تھا۔ ہم بچے تھے‘ جب اسے پھانسی دی گئی۔ لیکن ہم یہ جانتے تھے کہ وہ صرف اٹھارہ سال کا نوجوان تھا‘ پھر بھی غدر تحریک کے رہنمائوں میں اس کا نام آتا تھا۔وہ ایک نڈر لڑاکا اور بہترین منتظم تھا‘ اس کے دشمن تک اس کی تعریف کرتے تھے۔ میں اس کی پرستش کرتاتھا اور اپنے ہیرو کی اس قدر تعریف سن کر خوش ہوگیا تھا‘ مجھے بھگت سنگھ اچھا لگا۔ اس کے کانپور سے چلے جانے سے پہلے ہی ہم قریبی دوست بن گئے تھے‘ لیکن میں نے اس کے مایوس کن خیالات کامذاق اڑاناکبھی ترک نہ کیا‘۔
بھگت سنگھ کی کتابوں سے دوستی کانپور میں بھی جاری رہی۔ یہاں اس نے سوشلزم پر کئی کتابیں پڑھیں۔ اس کے والد اسے مسلسل ڈھونڈ رہے تھے۔ دادی اس کے غم میں بیمار تھیں۔ آخرکار وہ بھگت سنگھ کے دوستوں سے اس کا پتہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اسے کئی خط لکھے کہ وہ گھر واپس آجائے‘ لیکن وہ نہ مانا۔آخر تھک کر انہوں نے مشہور قوم پرست رہنما حسرت موہانی سے مدد کی درخواست کی اور انہیںیقین دلایا کہ بھگت سنگھ کو اس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ کانپور میں بھگت سنگھ ‘ حسرت کے سودیشی اسٹور پر اکثر جایا کرتاتھا۔ سب قوم ست نوجوان حسرت موہانی کی بے حد عزت کرتے تھے اور ان پر جان چھڑکتے تھے۔ انہوں نے بھگت سنگھ کو سمجھایا‘ وہ ان کی بات مان کر گھر واپس چلا گیا۔ اس کے والد نے حسرت سے کیا ہوا وعدہ نبھایا اور پھر اسے شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
بھگت سنگھ کچھ عرصہ گائوں میں اپنے والدین کے پاس رہا۔ پھر وہ کسانوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے پنجاب کے دیہاتوں میں گھومنے لگا۔ اسی زمانے میں گردوارے کی رقم خردبرد کرنے پر سکھ کسان اور مزدور سیاہ جھنڈے اٹھا کر رقم کھانے والوں‘ سرکار اور پولیس کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ ان مظاہرین کا ایک جلسہ بھگت سنگھ کے گائوں میں ہوا۔ جس میں بھگت سنگھ نے بھی تقریر کی۔ شاید یہ اس کی پہلی سیاسی تقریر تھی۔ اس تقریرمیں اس نے بنگال اور آئرلینڈ کی انقلابی تحریکوں کی تعریف کی۔ برطانیہ کی غلام پولیس ایک گائوں میں بھی اپنے آقاپر تنقید برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ پولیس نے بھگت سنگھ کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ بنایا اور گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ اس گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ لاہور اور پھر وہاں سے دلی چلا گیا۔
No comments:
Post a Comment